اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے فارسی پڑھنے کی درخواست کی، انھوں نے کہا کہ ’’بھائی!پڑھنے سے پہلے یہ سن لو کہ تم مجھ کو عالم الکل سمجھ کر پڑھنا چاہتے ہو، یا عالم البعض، اگر شقِ اوّل ہے تو بھائی! مجھ کو معاف رکھو، کیوںکہ میں عالم الکل نہیں، اور اگر ثانی ہے تو بے شک مجھ میں یہ صفت ہے لیکن اس کے مقتضا سے کبھی یہ بھی ہوگا کہ کسی مضمون کی نسبت یہ کہہ دوں گا کہ مجھ کو معلوم نہیں، تو مجھ کو پریشان مت کرنا اور دوسری جگہ حل کرلینا۔‘‘ سبحان اللہ! کیسی پاکیزہ بات انھوں نے کہی، پس یہی سمجھنا ہر عالم پر ضروری ہے۔ اسی طرح اگر اوّلاً اپنی غلطی معلوم نہ ہوئی لیکن بعد تقریر کے از خود یا طالب کے ۔ّمتنبہ کرنے سے اطلاع ہوگئی تو چاہیے کہ معاًاسی تقریر سے اپنا رُجوع ظاہر کردے، ورنہ غلط تقریر کرنے میں یا غلطی پر اَڑے رہنے میں چند خرابیاں ہیں: ایک تو گناہ جیسے حدیثِ موصوف سے معلوم ہوا، اور یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ یہ تو ۔ّتصرف حدیث کے ساتھ خاص ہے، بات یہ ہے کہ جتنے علومِ دینیہ ہیں سب حکایت عن الرسول ہیں، خواہ لفظاً ہویا معناً (ومِن ثَمَّ قیل: إن القیاس مظہر لا مثبت)۔ اور جتنے علوم ِآلیہ ہیں وہ علوم ِدینیہ کے تابع ہیں، والتابع لہ حکم المتبوع۔ پس اس طرح سے اس حدیث کا مضمون تمام علومِ مقصودہ ومبادی للمقصودہ کو عام ہے، پس غلط تقریر یا اس پر اصرار کرنے میں گناہ ہونا ان سب میں عام ہے۔ ایک خرابی یہ ہوئی۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ اگر طالبِ علم کو معلوم ہوگیا کہ یہ تقریر غلط ہے تب تو طبعاً اُستاد سے تنفر اور اس کی تحقیر قلب میں پیدا ہوگئی، اور اس کے ہوتے ہوئے پھر حقوقِ اُستادی کا ادا کرنا سخت دشوار ہے، تو یہ فعل اُستاد کا خلل بالواجب کا سبب ہوا ا ور اعانتِ معصیت، معصیت ہے، اور اگر طالبِ علم کو پتا نہ لگا تو وہ بے چارہ عمر بھر کے لیے جہل میں مبتلا ہوا، پھر یہی سلسلہ آگے معلوم نہیں کہاں تک چلے گا، پھر اس وبال کی کوئی حد ہے، ذرا سی عار پر نار کو اختیار کرنا کون سی عقل یا دین کی بات ہے؟ تیسری بات یہ ہے کہ اُستاد کے اخلاق اکثر تلمیذ میں سرایت کرتے ہیں، یہی ہٹ دھرمی اور سخن پروری کی صفت ذمیمہ اس میں پیدا ہوجاوے گی، اور اُستاد صاحب اس حدیث کے مصداق بنیں گے: مَنْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَعَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ۔ الحدیث1 یعنی جو شخص کوئی ۔ُبرا کام جاری کرتا ہے اس کو اس پر بھی گناہ ہوگا اور اس کے بعد جو بھی یہ کام کرے گا اس کا بھی گناہ ہوگا۔ بہرحال گناہ بھی اور شاگرد کے حقوق کی اضاعت بھی، گناہ کی تقریر ہوچکی اور اضاعتِ حقوق ظاہر ہے کہ اس کی خیر خواہی کے خلاف، اس کے واجب کا اِتلاف، اس کے اخلاق کا فساد، اس کو جہل میں مبتلا کرنا کہ ایک قسم کا غش اور خیانت ہے،