اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
البتہ احسان کیا اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر (إلی قولہ) سکھلاتا ہے اُن کو کتاب اور حکمت۔ ا س آیتِ کریمہ میں جناب رسول اللہﷺ کی نعمتِ بعثت پر منت ہونے کی ۔ّعلت میں تعلیمِ کتاب وحکمت کو ذکر فرمانا صاف دلیل ہے کہ جو شخص کسی کو دین کی تعلیم کرے وہ اس شخص کے حق میں نعمتِ الٰہی ہے اور اس کی قدر وتعظیم اس پر لازم ہے اور اس تعلیم میں سبق پڑھانا، اور مسئلہ بتلانا وغیرہ سب داخل ہیں کہ یہ سب تعلیم کے طریقے ہیں حتیٰ کہ کسی کی تصنیف سے منتفع ہوجانا اس قاعدے سے اس کے شاگردوں میں داخل ہوجاناہے، اس کے حقوق بھی مثل اُستادوں کے ثابت ہوجاویںگے۔ آیت۲: {قَالَ لَـہٗ مُوْسٰی ہَلْ اَتَّبِعُکَ}1 إلی آخر القصۃ۔ حضرت موسیٰ ( ؑ ) نے حضرت خضر ( ؑ ) سے کہا کہ کیا میں تمہاری پیروی کروں؟ ان آیتوں میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کا قصہ ہے، اس سے چند حقوق وآداب ثابت ہوتے ہیں: اوّل: اُستاد کی خدمت میں خود شاگرد جایا کرے، ان کو تکلیف نہ دے کہ آکر پڑھایا کریں۔ دوم: اگر اُستاد کسی اعتبار سے شاگر دسے رُتبے میں کم بھی ہو، تب بھی اس کا اتباع کرے۔ سوم: جس بات کے پوچھنے کو وہ منع کریں، نہ پوچھا کرے، اس کی مخالفت یا اس کو تنگ نہ کرے۔ چہارم: اگرکبھی غلطی سے اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجاوے تو معذرت کرلے۔ پنجم: اس کے تنگ ہونے یا مرض وغیرہ سے کسل مند ہونے کے وقت سبق بند کردے۔ اُستاد کے ساتھ گفتگو کے آداب ملحوظ رکھنا: آیت۳: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْاط}1 اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مت کہو راعنا، اور کہو: انظرنا اور سنو۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اُستاد کے ساتھ گفتگو میں بھی ادب ملحوظ رکھے، تا بہ معاملات چہ رسد۔