اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کچھ واقع ہونا ہے واقع ہوتا ہے۔ اور کبھی جواب نہیں دیتیں اور سکوت کرتی ہیں تو مریض القلب لوگ اس سے بھی استدلال کرتے ہیں ان کے نیم راضی ہونے پر، پھر وہ لوگ آیندہ کے پیام وسلام وتحریر سے اس کمی کو پورا کرنا چاہتے ہیں، چوںکہ ’’گوش زدہ اثرے دارد‘‘ قاعدہ اکثریہ ہے، پھر بعض کا طرزِ بیان جادو نشان ہوتا ہے، پھر نسوانی طبائع معمولی طور پر نرم بھی ہوتی ہیں تو شیطان کا جال پھیل جانا زیادہ عجیب نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی مکتوب الیہا نے ناراضی بھی ظاہر کی اور ناراضی کا جواب کاتب تک بھی پہنچادیا ہے، مگر اپنے شوہر یا خاندان کے خوف سے کہ خدا جانے کیا گمان کریں گے اور کیا معاملہ کریں گے، اپنے گھر والوں سے اس کا اخفا کرتی ہیں اور اس طور پر وہ کاتبین ہر طرح کی مضرّت سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے ان کی جسارت بڑھتی ہے اور پھر وہ دوسرے موقع پر اس کی سلسلہ جنبانی کرتے ہیں۔ اور ان سب واقعات کا مبنیٰ ان مستورات کا تعلیم یافتہ ہونا ہے، اگر وہ ناخواندہ ہوں تو ان کے پاس مضمون بھیجنے سے اندیشہ ہوگا دوسرے کے مطلع ہونے کا، یہ سبب ہوجاوے گا اس باب کے مسدود ہوجانے کا۔ اور یہ مفسدہ اس صورت میں زیادہ محتمل ہے جب کہ کسی عورت کے مضامین اخباروں میں بھی چھپنے لگیں اور ان مضامین کو دیکھ کر سخن شناس شیاطین اندازہ کرتے ہیں کاتبہ کے رنگ، طبیعت اور جذبات و خیالات کا، تو اس شرارت کے شرارے وہاں زیادہ پھیلتے ہیں بالخصوص اگر وہ کلام نظم بھی ہو تو اور بھی آفت۔ اور اس زمانے میں تو ایک اور غضب ہے کہ افتخار کے لیے صاحبِ مضامین کانام اور پتا تک صاف لکھ دیا جاتاہے کہ فلانے کی بیوی، فلانے کی بیٹی، فلاں جگہ کی رہنے والی، اور یہ تمام تر خرابیاں ان کے لکھے پڑھے ہونے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور اگر ان خفیہ ریشہ دوانیوں کی کسی طور پر شوہر یا اہلِ خاندان کو اطلاع ہی ہوگئی تو چوںکہ لکھا پڑھا آدمی ہوشیار اور سخن سازی پر زیادہ قادر ہوتاہے، وہ ایسی تاویلیں کرلیں گے کہ کبھی ان پر حرف ہی نہ آوے گا اور اُلٹا منہ ناک بنادیں گی، ۔ّمکاری سے رو دیں گی کہ ہم کو یوں کہا، کہیں خود ۔ُکشی اور کنویں میں ڈوبنے کی دھمکی دیں گی، حتیٰ کہ اس غریب باز ۔ُپرس کرنے والے کو خوشامد کرنا پڑے گی اور ڈرکے مارے پھر بھی زبان تک نہ ہلاوے گا۔ ایک خرابی اس تعلیم یافتہ طبقۂ اِناث میں یہ ہوتی ہے کہ ہر طرح کی کتابیں منگاکر پڑھتی ہیں، عشق بازی کے قصے، سازش اور لگاوٹ کے ناول، شوق انگیز غزلیں، پھر ان سے طبیعت بگڑتی ہے، کبھی ایسی غزلیں ذرا کھل کر پڑھتی ہیں کہ دروازے میں یا پڑوس اور ۔ّمحلے میں یا سڑک پر آواز جاتی ہے اور آواز پر کوئی فریفتہ ہوکر درپے ہوجاتاہے اور اگر وہ ناکام بھی رہا تاہم رُسوائی اورپریشانی کاسبب تو بن ہی جاتا ہے۔ یہ خلاصہ ہے ان صاحبوں کے خیالات کا اور میں ان واقعات کی تکذیب نہیں کرتا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ان صاحبوں