اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خضر ؑ کے تصرفات کا مبنی یہی مآل بینی تھی، گو وہ کمالِ موسوی سے اس لیے بڑھا ہوا نہ تھا کہ منشا اس مآل بینی کا کشف تھا اور ان واقعات کو فراست اور بصیرت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور موسیٰ ؑ کا کلام یہی تھا، اس لیے ان کی نظر سے یہ اُمور غائب رہے اور ادراکِ بصیرت اِدراکِ کشف سے افضل و اکمل ہے، اس لیے افضل موسیٰ ؑ ہی تھے۔ بعض جگہ اس مبصر کے نزدیک خود اس طالب پر اندیشہ اس کا نہیں ہوتا کہ بدونِ ۔ّتبحر فی العلم کے اس کا کوئی ضروری دینی جزو ۔ُمختل ہوجاوے گا۔ مگر یہ طالب ہے ایسے مقام کا رہنے والا جہاں جہل وفساد غالب ہے اوراس کے ساتھ ہی کسی کو تحصیلِ علمِ دین کی طرف توجہ نہیں جس سے ان کی اصلاح ہو، پس گو اس نواح والوں پر بہ طریقِ فرض ِکفایہ ہی ۔ّتبحر واجب ہے، مگر کوئی اس میں مشغول نہیں تو سب ہی گناہ گار ہوں گے اور ان سب میں یہ طالب بھی گناہ گار ہوگا اور گناہ سے بچنا واجب ہے، اس لیے اس واجب پر نظر کرکے یہ مبصر اس طالب کو رائے دے گا کہ تم والدین کے امر کو چھوڑ کر تبحرعلوم میں حاصل کرو اور اپنی قوم کی اصلاح کرو، اس لیے ایسے مشتبہ مواقع میں اپنی یامحض ظاہر پرست کی رائے پر وثوق نہ کرے، کسی محقق حکیم مبصر جامعِ ظاہر وباطن سے فتویٰ لے کر اس کا اتباع کرے۔ تیسری مثال ایسے اُمورِ دقیقہ کی جن کو بعض اہلِ علم بھی مباح یا قربت سمجھتے ہیں مگر محققینِ راسخین اس کو روکتے ہیں، سفر کرنا حجِ نفل کے لیے ظاہراًقربت معلوم ہوتا ہے مگر بعض اشخاص کے خاص حالات سے محقق کو اس کا اندازہ ہوتاہے کہ اس کا حج کرنا اس لیے مضر ہوگا کہ یا تو اس سے فرض نماز کی پابندی نہ ہوگی یا اہل و عیال کے حقوقِ واجبہ ضایع ہوں گے یا قلتِ زادِ راہ کے سبب تکلیفیں اُٹھاوے گا اور اس کے قلب میں بیت اللہ یا صاحب البیت سے تنگی و شکوہ پیدا ہوگا، جیسا بعض لوگوں کو دیکھا جاتاہے، یا یہ کہ سوالِ حرام میں مبتلا ہوگا، ونحو ذالک۔ اور یہ سب معاصی ہیں اور معصیت کا سبب بھی معصیت ہے، اس لیے وہ محقق اس شخص کو حج سے منع کرتا ہے، اس لیے کہ جس طرح مقدّمۃ الواجب واجب قاعدہ ہے، اسی طرح مقدّمۃ الحرام حرامٌ بھی ایک قاعدہ ہے، جس میں بعض اوقات مثل قاعدئہ بالا ظاہر بینوں سے غلطی بھی اور ان کو اہلِ بصیرت کے بعض اَحکام پر استعجاب بھی ہونے لگتا ہے، چناںچہ ایک محقق کا یہاں تک قول ہے کہ اگر کسی شخص کو شریعت سفرِحج کی اجازت نہ دے اور قرائنِ قویہ سے یہ معلوم ہو کہ: ’’اگر وہاں کے حالات اس شخص کے سامنے بیان کیے جائیں گے تو اس کو اس قدر شوق ہوگا کہ یہ اضطراراً سفر میں چل کھڑا ہوگا، تو ایسے شخص کے سامنے ایسے شوق انگیز حالات بیان کرنا تک جائز نہیں۔‘‘ ان محقق پر اس حکم میں بے حد ملامت ہوئی کہ توبہ توبہ وہاں کے حالات بیان کرنے کو منع کردیا، مگر ان بزرگ معترضوں نے یہ نہ دیکھا کہ جس دلیل سے یہ منع کررہے ہیں آیا اس کے کسی مقد۔ّمے میں کوئی خدشہ ہے؟ اگر ہے تو اس کو صاف کرنا چاہیے، اگر نہیں ہے تو ماننا چاہیے، مقد۔ّمات کو تسلیم