اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے لیے باہم رنج وکدورت پیدا ہوجاتی ہے، چناںچہ ایک تجربہ کار بزرگ کا ارشاد ہے: مدہ شان قرض وستاں نیم حبہ فان القرض مقراض المحبّہ تو آلۂ فصل کو آلۂ وصل کہنا کیسے صحیح ہوگا؟ دفع اس خدشے کا یہ ہے کہ یہ قطعِ محبت اثر قرض کا نہیںہے، اس کا اثر تو وہی ہے جو اُوپر مذکور ہوا، یعنی ازدیادِ محبت و اُلفت، بلکہ یہ اثر مستقرضین یعنی لینے والوں کی بد تدبیری کا ہے، وہ یہ کہ اکثر لوگوں کی حالت دیکھی جاتی ہے کہ قرض لے کر بے فکرے ہوجاتے ہیں، باوجود گنجایش کے اور تمام فضول کارروائیوں کے قرض کے ادا کا اہتمام نہیں کرتے، بعضے تو بہت ہی ٹال کر دیتے ہیں اور بعضے دیتے ہی نہیں، اگر تقاضا کیجیے، ۔ُبرا مانتے ہیں اور ان کی اس حرکت سے مقرض(یعنی قرض دینے والے) کو ۔ُکلفت ہوتی ہے، اور جب یہی ۔ُکلفت روز ۔ّمرہ ۔ّمدتوں تک پہنچے تو ضرور اس کا اثر یہ ہوگا کہ محبت قلب سے نکل جاوے گی اور رنج وشکایت پیداہوجاوے گی، تو اپنی بے عنوانی کے اثر کو قرض کی طرف منسوب کرنابڑی غلطی ہے، پس خدشہ رأساً و أساساً منقلع ومنقطع ہوگیا۔ لیکن معمولی ۔ُکلفت سے تنگ دل ہوکر قرض دینے کا سلسلہ بند نہ کرنا چاہیے کیوںکہ یہ بھی اجر سے خالی نہیں، احادیث میں اس سے کم تنگ دلی پر وعدئہ ثواب آیا ہے کہ اگر کوئی چیز کہیں رکھ کر بھول جاؤ اور اس کی تلاش میں قدرے پریشانی ہو، پھر وہ مل جاوے تو اس میں بھی ثواب ہے، تو قرض وصول نہ ہونے پر یا وقت پر وصول نہ ہونے پر تو اس سے بہت پریشانی ہوتی ہے، تو اس میں اس سے زیادہ اجر کیوں نہ ملے گا؟ اس لیے بہ قدرِ تحمل اتلاف کو بھی برداشت کرلینا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ قرض لینے والے کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ اس کو بھی چاہیے کہ قرض دینے والے کا احسان مانے اور اس کو تکلیف نہ دے، اور وقت پر اس کی امانت پہنچادے تاکہ پھر بھی قرض لینے کا منہ رہے۔ اور اس ناد ہندی کی بدولت آپس میں قرض نہیں ملتا، پھر کافروں سے سودی لیتے ہیں اور تباہ ہوتے ہیں، ورنہ اگر وقت پر دوسرے کاحق پہنچ جایا کرے تو بہت مسلمان ایسے ہیں کہ وہ خود اپنی مصلحت سے اپنے روپیہ کا قرض پر چلتا رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں کہ حفاظت سے بچتے ہیں اور تجارت کو یہ لوگ پسند نہیں کرتے، یا تو بہ وجہ احتمالِ خسارہ کے اور یا بہ وجہ تو۔ّحشِ تعلقات کے، یا بہ وجہ عدمِ مناسبت کے، تو ایسے لوگوں کا روپیہ قرض میں بآسانی مل سکتا ہے اور غیر قوموں کو سود دے کر اپنا گھر تباہ ہونے سے بچاسکتے ہیں، لیکن معاملات خراب ہیں کہ لے کر دینا نہیں چاہتے، دوچار جگہ ٹھوکر کھاکر سب سے متوحش ہوجاتاہے اور بقول شخصے ’’دودھ کا منہ جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کرپیتا ہے‘‘، وہ کسی کوبھی قرض نہیں دیتا، اور