اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو۔ اگر اصلی سبب دنیوی رنج ہو تو سمجھنا چاہیے کہ دین کو اپنی اغراض دنیویہ کا ذریعہ بنانا سخت نازیبا وناپسندیدہ اور بے ادبی وگستاخی ہے، جس کا قبیح ہونا محتاجِ بیان نہیں، اگر خلق سے اپنا عیب چھپا لیا تو حق تعالیٰ پر تو ظاہر ہے، اُس کو کیا جواب دوگے؟ اگر اصلی سبب تکبر ہے تب بھی یہی جواب ہے اور اس سے کچھ اوپر بھی مفصل بیان تکبر کا ہوچکا ہے۔ اور یہ بے پردگی کا بہانہ جو تراشا گیا ہے، سو اس کا کلی جواب تو یہی ہے نفسانی غرض کو دین کی آڑ کیوں بناتے ہو؟ اور جزئی جواب یہ ہے کہ خود معترض بھی اس اعتراض سے کم محفوظ ہوں گے، کیوںکہ پورا پردہ شریعت کے موافق بڑے لوگوں میں بہت کم ہوتاہے، اکثر ان کے متعلقات دور و نزدیک کے اعزّہ کے رُو برو بے حجاب آتے ہیں، اتنا فرق ہے کہ بعض غریبوں کی عورتیں خود گھر سے نکل کر نا محرموں کا سامنا کرتی ہیں اور امیروں کی عورتیں گھروں کے اندر بیٹھ کر نامحرموں کا سامنا کرتی ہیں، تو دونوں برابر ہوئیں، بلکہ غریبوں کی بیویوں میں اتنی ترجیح ہے کہ وہ میلی کچیلی ہوکر نا محرموں کے سامنے آتی ہیں اور اُمرا کی عورتیں زیب وزینت کے ساتھ آتی ہیں، تو اب خود دیکھ لیجیے کہ یہ اَقبح ہے یا وہ اَقبح ہے، تو اس حیثیت سے بھی اکثر ۔ُغربا اولی بالامامت ہوئے اکثر اُمرا سے۔ اور اگر تد۔ّین ہی سبب ہے تو اس میں جو غلطی ہے وہ مسئلے کے جاننے سے جاتی رہے گی، جیسا اُوپر بیان کیا گیا کہ انفراد سے جماعت افضل ہے، رہی کراہت تو اوّل تو کراہتِ اقتدا اس کے لیے ہے جو اس امام کے معزول کرنے پر قادر ہو، پھر یہ کہ کراہت اَخف ہے ترکِ جماعت کی کراہت یا حرمت سے، البتہ اگر ایسے مقام پر شریک جماعت ہونے سے احتمال فتنے کا ہوتو یک سوئی بہتر ہے۔ ان تارکانِ جماعت میں بعض مشائخ دیکھے جاتے ہیں، ان کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ جماعت میں اختلاطِ خلق ہوتا ہے اور اختلاطِ خلق ذاکر وسالک کو مضر ہے۔ اور بعض نے بیان کیا کہ تنہا پڑھنے میں وساوس وخطرات کم آتے ہیں، اور جو نماز حضورِ قلب کے ساتھ ہو وہ افضل ہوتی ہے عدمِ حضور والی نماز سے، اور جماعت میں یہ حضور میسر نہیں ہوتا، اس دھوکے کا منشا یہ ہے کہ یہ حضرات مواجید وکیفیاتِ ذوقیہ کو مقصود با۔ّلذات سمجھ بیٹھے اور وہ بعض اوقات خلوت میں زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت جلوت کے، لیکن واقع میں مقصود با۔ّلذات رضائے حق ہے، جس کا ذریعہ بجا آوریٔ احکام ہے کہ من جملہ ان کے جماعت کی نماز ہے۔ اگرچہ اس میں ذوقیات ووجدانیات کی قلت ہو۔ پھر تجربہ ہوا ہے کہ بعض افعالِ شرعیہ گو سر دست کسی کیفیتِ خاص کی قلت کا سبب معلوم ہوتے ہیں، مگر ان کی مداومت سے دوسری کوئی کیفیت بہ تدریج ایسی حاصل ہوتی ہے کہ اس کیفیتِ فائتہ