اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
التجا کرنی پڑے اور ان کی استدعا سے تمہاری رہائی ہو، تو باوجود قیامِ احتمال کے تم کو ان کو حقیر سمجھنے کا کیا حق حاصل ہے؟ دوسرے اگر تمہاری شان ان مساکین سے زیادہ بھی مان لی جائے تو تم مساجد میں ان مساکین کی تعظیم کے لیے تو نہیں بھیجے جاتے کہ خلافِ شان ہو، بلکہ تم اور وہ سب ایک ایسے عظیم الشان کی تعظیم کے لیے جمع ہوئے ہو جس کی تعظیم سے تمہاری شان بڑھتی ہے، کیا کسی بادشاہ کے دربارِ عام کے موقع پر کوئی شخص محض اس بنا پر حاضر ہوکر سلام کرنے سے اعراض یا اغماض کرنے کی ۔ّہمت کرسکتا ہے کہ وہاں تو غربا بھی جاکر سلام کرتے ہیں؟ اور اس سلام کے لیے جانا اہانت ہے، کیا سچ مچ ایسے دربار کے موقع پر سلام کرنا اہانت ہے؟ ہر گز نہیں، ہر گز نہیں، کیا کوئی ایسا سمجھ کر نہ جائے تو وہ سرکش اور گستاخ نہ سمجھا جائے گا؟ ضرور، ضرور، تو تعجب ہے کہ دربارِ شاہی کے ساتھ تو یہ برتاؤ اور دربارِ الٰہی کے ساتھ یہ برتاؤ! صدق اللّٰہ تعالیٰ: {مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌO}1 اللہ کی قدر نہیں سمجھے جیسی اس کی قدر ہے، بے شک اللہ زور آور زبردست ہے۔ اور اگر کسی مسکین کے امام ہونے سے عار آتی ہے تو اوّل تو وہ عار کی بات نہیں، کیا ۔ُحکام کے درباروں میں حاضر ہونے کے وقت اردلی خاص کہ رتبہ اور ریاست میں تمہارے برابر نہیں، پیشی کرنے کے وقت تمہارا پیش رو نہیں ہوتا؟ پھر اس وقت عار کیوں نہیں آتی؟ یہ ساری عار خدا ہی کے معاملے میں کیوں ہے؟ اصل یہ ہے کہ وہاں تو خوش نودی مقصود ہے، وہ جس طریق سے بھی حاصل ہو، اور یہاں یہی مقصود نہیں، ورنہ کسی طریق سے بھی عار نہیں آتی، ولِلّٰہ درّ العارف الرومي2 ؒ حیث یقول: شاد باد اے عشقِ خوش سودائے ما اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما اے دوائے نخوت و ناموس ما اے تو افلاطون و جالینوس ما دوسرے اگر پھر بھی عار ہے تو آپ لیاقتِ علمی وعملی ان مساکین سے زیادہ حاصل کیجیے، پھر آپ کے ہوتے ہوئے وہ غریب خود ہی امام نہ بنے گا، آپ امام بنیے، اس مسکین کو عار نہ آئے گی، وہ اقتدا کرے گا اور جماعت ہوجائے گی۔ افسوس! خود تو الحمد اور قل ہو اللّٰہ بھی صحیح نہ جانتے ہوں، اس تک کی خبر نہ ہو کہ سجدئہ سہو کن کن صورتوں میں واجب ہوجاتاہے،