اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اور اگر کوئی اِستخارے کو اس غرض کے لیے سمجھے ہوئے ہے تو وہ اپنے غلط خیال کی اصلاح کرے کہ بالکل اعتقادِ باطل ہے۔ اور یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اس سے واقعۂ گزشتہ نہیں معلوم ہوتا، اسی طرح واقعۂ آیندہ بھی کہ فلاں بات پوری ہوگی، معلوم نہیں کیاجاسکتا۔ بس اِستخارے1 کا صرف اتنا اثر ہے کہ جس کام میں تردد ہو، کہ یوں کرنا بہتر ہے یا یوں؟ یا یہ کہ کرنا بہتر ہے یا نہ کرنا؟ تو اس عمل مسنون سے (کہ حاصل اس کا دعا ہے، اس امر کی کہ جومیرے لیے مصلحت ہومیرا قلب اس پر مطمئن ہوجائے اور ویسا ہی سامان غیب سے ہوجائے) دو اثر ہوتے ہیں: ز قلب کا اس شق پر مجتمع ہوجانا۔ ز اور اس مصلحت کے اسباب میسر ہوجانا، بلکہ خواب نظر آنا بھی ضروری نہیں، من قال سوی ذاک فقد قال محالا (یعنی جس نے اس کے علاوہ کہا، بے جا کہا) اور بعض بزرگانِ دین سے جو بعضے اِستخارے اس قسم کے منقول ہیں جس سے واقعہ صراحتاً یا اشارتاً خواب میں نظر آجائے، سوہ وہ اِستخارہ نہیں ہے، بلکہ خواب نظر آنے کا عمل ہے۔ پھر یہ اثر بھی اس کالازمی نہیں، خواب کبھی نظر آتاہے، کبھی نہیں، اور خواب بھی اگر نظر آیا تو وہ محتاجِ تعبیر ہے، اگرچہ صراحت سے نظر آئے، پھر تعبیر بھی جوکچھ ہوگی وہ ظنی ہے، یقینی نہیں۔ اس میں اتنے شبہات تو بتو ہیں، پس اس کو اِستخارہ کہنا یا مجاز ہے اگر ان بزرگوں سے یہ تسمیہ منقول ہو، ورنہ اغلاطِ عا۔ّمہ سے ہے۔ اسی لیے محققین ایسے اُمور اپنے خاص ہی لوگوں کو بتلاتے ہیں کہ ان کے قلوب بھی ۔ّمنور ہوتے ہیںاور عقائد بھی ۔ّمطہر ہوتے ہیں، طہارتِ عقیدہ کی بدولت غلو فی الدین (دین میں حد سے زیادہ بڑھنا) سے محفوظ ہوتے ہیں اور نورانیتِ قلب کے سبب ان کا انکشاف و منام راجح الصدق ہوتاہے، جو حقیقت ہے ظن کی، ورنہ عوام پر تو اضغاث احلام (پراگندہ خواب) ہی غالب ہوتے ہیں۔ مثلاً: ایسی فال وغیرہ کی بنا اور اعتماد پر تو کسی مسلمان سے بدگمان ہوجانا اورکسی قول یا فعل یا خیالِ غیرمشروع کا مرتکب ہوجانا، یہ خاص خرابیاں اس عملِ فال میں ہیں اور یہی حکم ہے عارفین کے کلام سے فال لینے کا، غرض یہ عمل مروّج طریق پر بالیقین مذموم ہے۔ اگر کسی طالب کو یہ وسوسہ ہو کہ اس تقریر سے تو فال کا محض بے اصل ہونا ثابت ہوتاہے، حالاں کہ احادیث میں صاف