اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آواز کو بلند کیا جاتا ہے، حالاںکہ {لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ}1 (یعنی بلند نہ کرو اپنی آوازیں نبی کی آواز سے ) ۔ُعلما نے درسِ حدیث کے وقت رفعِ صوت کو منع کیاہے، فضلًا عن القرآن (چہ جائے کہ قرآنِ مجید)۔ اگر کوئی پڑھنے والا غلط پڑھتا ہے، اس کو بتلایا نہیں جاتا، حتیٰ کہ اساتذہ اپنے شاگردوں سے سنتے ہیںاور نہیں ٹوکتے اور وہ غلطیاں عمر بھر کے لیے ان کی ۔ُگلو گیر ہوجاتی ہیں۔ بعض ۔ّحفاظ تراویح میں دوسری جگہ جاکرپڑھنے والوں کو کبھی کھٹکھٹا کر ، کبھی کھنکھار کر، کبھی غلط بتلاکر پریشان کرتے ہیں، کیا قرآنِ مجید سننے کا یہی ادب ہے؟ اور اسی طرح استماعِ معانی یعنی وعظ کے وقت بعضے آدمی آپس میں باتیں کیا کرتے ہیں، حالاںکہ آیت {وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ}الآیۃ (اور جب قرآن پڑھا جائے) سے اور آیت {فَمَا لَہُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَO} (پھر کیا ہوا ہے اُن کو کہ نصیحت سے منہ موڑتے ہیں) سے یہ حرام ہے، ہاں! کسی عذر سے وہاں نہ بیٹھ سکنا یا اٹھ کر چلے جانا، مضایقہ نہیں،وہاںحاضر رہ کر دوسری طرف مشغول ہونا یہ مذموم ہے۔ غرض یہ سب مذکورہ کوتاہیاں اور جو ان کے اشباہ ونظائر ہوں، ان سب کا تدارک کرنا ضروری ہے، جیسا ہم مضمون کے درمیان میں ہر ایک کے تدارک کا نہایت آسان، آسان طریقہ بھی بتلاتے آئے ہیں، ورنہ اندیشہ ہے کہ قیامت میں کہیں ہماری وہی حکایت نہ ہو: {وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوْرًاO}1 اورکہا رسول نے اے میرے ربّ! میری قوم نے ٹھہرایا ہے اس قرآن کو جھک جھک پھر اس وقت کی حالت دیکھ کر یہ کہنا پڑے: نعوذ باللّٰہ من غضب اللّٰہ وغضب رسول اللّٰہ۔ یعنی ہم اللہ سے، اللہ کے غضب سے اور اللہ کے رسول کے غضب سے پناہ پکڑتے ہیں مگر وقت ہوگا کہ: لا ینفع النادم ندمہ حیث أن الندم عمل وہو دار الجزاء لا دار العمل۔