اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’أُمتي مِن حیث ہو أُمتي‘‘ کے اعتبار سے دُنیوی انقلاب تو مطمحِ نظر ہونہیں سکتا، گو اس سے بحث کرنے کو بھی میں بے کار نہیں سمجھتا، مگر حیثیتِ مذکورہ سے بحث مقصود نہیں، بلکہ انقلابِ دینی سے بحث مقصود ہے، اسی کے نسبت اس وقت عرض کرنا چاہتا ہوں۔ افسوس کے ساتھ کہا جاتاہے کہ جس مرتبے کا انقلابِ عظیم اکثر آحادِ اُمت میں واقع ہوا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے بے اختیار یہ زبان پر آتاہے : اے بسرِ پردئہ یثرب بخواب خیز کہ شد مشرق و مغرب خراب اے وہ ذات جو مدینہ میں محوِ خواب ہے! اُٹھیے کہ مشرق و مغرب برباد ہوگئے۔ اس انقلاب کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہاتھ میں ایک کتاب تفاصیلِ اَحکامِ شرعیہ کی لے لیجیے، اور ایک نظر سے ایک ایک حکمِ جزئی کو دیکھتے جایئے، اور ایک نظر سے کسی غیر مطیع اُمتی کی ایک ایک حالت کو جو اس جزئی کا محمل اور متعلق ہے، دیکھتے جائیے، اور دونوں کا ملاتے جائیے، تو ایک حیرتِ عظیم ہوگی کہ یا اللہ! ان حالتوں کے مرتکب کو کیا اِ ن اَحکام سے کچھ مس معلوم ہوتا ہے؟ دِین کے یہ اجزا ہیں: ۱۔ عقائد۔ ۲۔ دیانات (مثل: نماز، روزہ، طلاق، نکاح وغیرہ)۔ ۳۔ معاملات (مثل: بیع وشرا وغیرہ)۔ ۴۔ معاشرات (مثل: طعام، لباس، کلام وسلام وغیرہ)۔ ۵۔ اخلاقِ باطنہ (مثل: رِیا واِخلاص وکبر وتواضع وغیرہ)۔ عقائد میں مسلمانوں سے غنیمت ہے ’’انکار کا انقلاب‘‘ نہیں پیدا کیا، گو اُن میں تد۔ّین کے رنگ میں کچھ تغیر و تبدل ہوا، جس سے وہ ۔ّحدِ بدعت میں داخل ہوگئے، اور جس نے اہلِ باطل کو اِسی تغیر کی اصلاح کے سبب اہلِ حق کا مخالف بنادیا۔ غرضے کہ نصوص کا انکار نہیں کیا گیا، البتہ تاویلِ باطل کی گئی۔ یہ حالت عام مسلمانوں کی ہے۔