اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوئے بھی نہیں ہوتے محض قرائن پر (پھر قرائن بھی کیسے، جو ضعیف الدلالت بھی نہیں، محض غیر دال) اعتماد کرکے زبان سے ہانک دیا، خود ہی تفسیر و حدیث میں اس کے متعلق احکام پڑھائیں، وعظ میں دوسروں کو سنائیں، مگر جب عمل کا موقع ہو ایسے بھول جائیں گویا اس کے متعلق کبھی حکمِ شرعی کان میں پڑا ہی نہیں، پس بہ لفظ دیگر گویا قرآن و حدیث صرف درس و وعظ کے لیے ہے، عمل کے لیے ہے ہی نہیں، یا اگر عمل کے لیے بھی ہے تو صرف عوام کے لیے، اور خواص اس سے ۔َبری ہیں، یہ تو بعینہٖ ۔ُعلمائے یہود کا طرز ہے۔ اللّٰہم احفظنا۔ بہرحال کوئی خاص ہو یا عامی، احکام تو سب ہی کے لیے عام ہیں، اور حدیث: کَفَی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔ آدمی کے جھوٹ کے لیے کافی ہے کہ وہی بات (بلا تحقیق) کرے، جو اُس نے (کسی سے) سنی۔ اور حدیث: إِیَّاکُمْ وَالظَّنّ؛ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ۔ بدگمانی سے بچو، کیوں کہ بدگمانی زیادہ جھوٹی بات ہے۔ ان ابواب میں نصوصِ صریحہ صحیحہ ہیں، نیز ان احادیث کا مدلول شب و روز مشاہدے میں بھی آتاہے کہ سنی ہوئی حکایات اور اس سے بڑھ کر قرائن پر بنا کی ہوئی روایات اس کثرت سے غلط نکلتی ہیں کہ گویا قریب قریب سب ہی غلط ہوتی ہیں، اور اگر اتفاقاً شاذ و نادر کوئی صحیح بھی ہوتی ہے، تو اس میں جھوٹ کی آمیزش (ملاوٹ) اس نسبت سے ہوتی ہے جو ۔َپر اور کوّے میں نسبت ہے، یعنی ۔َپر کے برابر سچ ہوتاہے اور کوّے کے برابر جھوٹ۔ پھر اس بے بنیاد اور لغو اور مہمل حکایت پر کسی سے عداوت، کسی پر بدگمانی، کسی کی نسبت بد زبانی بے تکلف جائز رکھی جاتی ہے اور عجب بات ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جس کی نسبت کوئی نہ کوئی شخص ایسی بے ہودہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ کہتا نہ ہو، اور خود اس شخص کو اس مقولے کا باطل ہونا معلوم ہوتاہے، اور اس مقولے سے ناگواری بھی محسوس کرتاہے، اور اس وقت خود بھی اسی قاعدۂ شرعیہ سے تمسّک کرتاہے، اور اس قائل کو اس قاعدے کی مخالفت پر جاہل سمجھتا ہے، مگر خود کسی کی نسبت کچھ کہنے بیٹھتاہے اُس وقت یہ سب اُصولِ صحیحہ کالعدم ہوجاتے ہیں، تو گویا معنی اس کے یہ ہوئے کہ اور لوگ تو