اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی ہاں! اگر وہ بیبیاں خوش دلی سے چھوڑدیں تم کو اس مہر میں سے کوئی جزو، تو تم اس کو کھاؤ مزے دار، خوش گوار سمجھ کر۔ { وَاَنْ تَعْفُوْآ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیط}2 اور تمہارا معاف کرنا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ کہ حق تعالیٰ نے مہر کی معافی کی صحت کے لیے ۔ِطیبِ نفس کی شرط لگائی، اور پھر أقرب إلی التقوی عالی ہمتی کو فرمایا کہ بجائے ان سے معاف کرانے کے اُن کے حق سے زائد ان کو دے دو۔ لوگوںکومجبور کرکے چندہ وصول کرنا جائز نہیں: چناںچہ اس نظر نہ پڑنے کا ثمرہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے جن کے ساتھ بیوی جیسی بے تکلفی بھی نہیں، یہ لوگ مساجد اور مدارس کے لیے خطابِ خاص کے ساتھ چندے کا سوال کرتے ہیں، اور بہ وجہ بے تکلفی نہ ہونے کے وہ لوگ ان کی وجاہتِ دُنیویہ یا دِینیہ سے مرعوب اور مغلوب ہوکر آزادی کے ساتھ اپنی رائے ظاہر نہیں کرسکتے، اور کراہت کے ساتھ اس سوال کوپورا کرتے ہیں، موٹی بات یہ ہے کہ بی بی جس سے غایت درجہ بے تکلفی ہے، اور جہاں غالب ۔ِطیبِ خاطر ہے، جب اس سے معافی قبول کرنے میں ۔ِطیبِ خاطر کو شرط قرار دیا گیا ہے، جو تکلف کے موقع پر جہاں ایسا تعلق بھی نہیں اس ۔ِطیبِ خاطر کا اہتمامِ بلیغ کیوں نہ شرط ہوگا؟ چناںچہ ایک حدیث میں اس کی غایت درجے کی تصریح فرمائی ہے: أَلَا لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِیٍٔ مُّسْلِمٍ إِلَّا بِطِیْبِ نَفْسٍ مِنْہُ۔ خبردار! کسی مسلمان کا مال بدون اس کی طیبِ خاطر کے حلال نہیں۔ عالی ہمتی وعالی حوصلگی ونیز اِیقائے ۔عزتِ دین کا مقتضا تو یہ تھا کہ اس باب میں بالکل ہی یک سوئی اختیار کرتے، اور حضراتِ انبیا ؑ کی سنت پررہتے، حیث قالوا: لا أسألکم علیہ مالا (میں تم سے اس پر مال کا سوال نہیں کرتا) نظر نہ ہونے نے اس غائلہ (آفت)میں مبتلا کیا۔