اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وصول ہوجانا عامۂ مسلمین سے وصول ہوجانے کی صورت تھی، چناںچہ ۔ُفقہا نے قضاۃ و ۔ُعلما و ۔ُمفتیین وأمثالہم کی کفایت کا بیان بیت المال میں سے ہونا تصریحاً لکھا ہے، اور جب سے بیت المال منتظم نہیں رہا، اب اس کی صورت صرف یہی ہے کہ سب مسلمان متفق و مجتمع ہوکر تھوڑا تھوڑا سب ان حضرات کی خدمت بہ قدر کفایت کریں، خواہ مدرسہ کی شکل میں ہو جس میں ضبواط و قواعد ۔ّمقرر ہوتے ہیں، اور ان صاحبوں کی تنخواہیں اور وظیفے ۔ّمقرر ہوتے ہیں، اور یہ سہل اور أقرب إلی الضبط(آسان اور انتظامی لحاظ سے بہتر ) ہے، اور خواہ تو۔ّکل کی صورت میں ہو جس میں کوئی مقدار ۔ّمعین نہیں، جو کسی کو توفیق ہوئی بلا واسطہ کسی مہتمم وغیرہ کے خود ان کی نذر کردے، اور یہ أقرب إلی الخلوص (خلوص کے قریب) ہے۔ اور یہ مسئلہ قرآنی منصوص بھی ہے،قال اللّٰہ تعالیٰ: {لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِز} 1 اس میں حق اُن حاجت مندوں کا بھی ہے جو مقید ہوگئے اللہ کی راہ میں، اس لیے کہ وہ زمین میں محنت مشقت نہیں کرسکتے۔ اس آیت میں اگر ان اُمور پر نظر کی جائے کہ’’ لام‘‘ استحقاق کا ہے، لفظِ’’ ۔ُفقرا‘‘ احتیاج کو بتلا رہا ہے، {اُحْصِرُوْا} احتباس پر دلالت کررہا ہے، اور {فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ} کی تفسیر طالبِ علم کے ساتھ منقول ہے، اور{ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا} عدم التفرغ لأسباب المعاش (اسبابِ معاش کی فرصت نہ ہونے) کی طرف اشارہ کررہا ہے، تو تقریرِ مذکورکی صریح دلیل ہے۔ پس۔ُعلما و ُطلبا سے جو سوال کیا جاتاہے کہ ’’یہ لوگ جو علمِ دین میں مشغول ہیں، آخر انھوں نے معاش کا کیا انتظام کیا ہے؟‘‘ تو عجیب بات ہے کہ سوال کا حق تو ان کو تھا، بالعکس (اُلٹا) وہ اُن سے پوچھنے لگے۔ اب معلوم ہوگیاہوگا کہ جب اس کا انتظام قوم پر واجب ہے تو اگر ان کی خدمت میں کوتاہی کریں گے تو قیامت میں ان سے باز ۔ُپرس ہوگی۔اور اس تقریر سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تعلیمِ دین پر جو تنخواہ لی جاتی ہے، اس میں امام شافعی ؒ کے قول: جواز أخذ الأجرت علی الطاعات (نیکیوںپر معاوضہ حاصل کرنے کے جائز ہونے) پرفتویٰ دینے کی حاجت نہیں، اس کو اُجرت ہی کیوںکہا جائے؟ کفایت جزاء للحبس (پابندی کے بدلے کے لیے کفایت) کہا جائے تو خود امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب پر اس کا جواز ثابت رہے گا۔ اگریہ شبہ کیا جائے کہ یہ سب موقوف اس پر ہے کہ یہ لوگ اپنی معاش کے لیے فارغ نہیں ہیں، سو ہم یہ نہیں مانتے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تجربے سے معلوم ہوتی ہے، اگر یہ لوگ معاش میں مشغول ہوں تو ان خدماتِ دینیہ کا ایسا حق ادا