اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جس طرح ملحقاتِ زکوٰۃ سے صدقۂ فطر ہے، جس کے متعلق پہلے بہ قدرِ ضرورت مضمون لکھا جا چکا ہے، اسی طرح اس کے ملحقات میں سے قربانی بھی ہے، انقلاب کے اثر میں مثل دیگر اعمالِ دینیہ کے یہ بھی شریک اور اس حیثیت سے واجب الاصلاح ہے۔ اس میں ایک کوتاہی جو رأس التفریطات ہے، یہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ باوجود وسعت اور وجوب کے قربانی نہیں کرتے، بلکہ بعض خاندانوں میں کئی پشت سے قربانی نہیں ہوئی، بلکہ بعض دیہات کے لوگ اس کو جانتے تک بھی نہیں، بعض سستی وبے پروائی کے سبب نہیں کرتے، بعض بخل کے سبب کوتاہی کرتے ہیں۔ پس اگر سبب اس کا ناواقفی وبے خبری ہے تو اس کی اصلاح یہ ہے کہ ان کو اس کے وجوب سے اور ترک پر جو وعید ہے جیسا ابنِ ماجہ میں حدیثِ مرفوع ہے : مَنْ وَجَدَ سَعَۃً وَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا۔ یعنی جس شخص کے پاس قربانی کرنے کی گنجایش ہو اور پھر بھی وہ قربانی نہ کرے، تو ایسا شخص ہرگز ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ اس پر ان کو اطلاع دی جائے،بالخصوص واعظین و ۔ُخطبا یا ان اہلِ علم کو جو دیہات میں وعظ و تبلیغ کی غرض سے جاتے ہیں، ضرور ہے کہ وہ دیہات کے لوگوں کو جب کہ وہ جمعہ میں حاضر یا خود دیہات میں جاتے ہیں اس کے وجوب پر بلکہ اس کے متعلق احکام پر بھی آگاہ کردیں۔ بعض باوجود اس قدر وسعت کہ جس پر قربانی واجب ہوتی ہے اپنے ذہن میں اسے اس لیے سبک دوش سمجھے ہوئے ہیں کہ ان کو اس وسعت کی مقدار معلوم نہیں، تو ان کو اس سے آگاہ کیا جائے کہ جس کے پاس حوائجِ ضروریہ سے زائد تخمیناً پچاس روپیہ نقد یا مالِ تجارت یازیور یا جائیداد و مکانات علاوہ مکانِ سکونت و کفایت معاش سالانہ کے موجود ہو، پس اتنی وسعت پر قربانی واجب ہوجائے گی، خواہ مرد ہو یا عورت، البتہ بچوں پر یا بچوں کی طرف سے واجب نہیں۔ اور اگر بے پروائی اس کا سبب ہے تو ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ دنیا کی جلبِ منافع ودفعِ مضار کے لیے اگرچہ وہ درجۂ ضرورت میں نہ ہوں، اور اگرچہ وہ موہوم بھی ہوں، کس قدر روپیہ موقع پر بلکہ ہر روز ہی خرچ کیا کرتے ہیں، اور پھر وہ