اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
معلم ہونا منصوص ہے اور ظاہر ہے کہ اُستاد بحیثیت اُستادی شاگرد سے افضل ہوتاہے اور اگر معلم کے افضل ہونے کو تسلیم نہ کیجیے تو جناب رسولِ مقبولﷺ کا اُمت سے باعتبار علم کے افضل ہوناثابت نہ ہوگا، حالاںکہ آپ اس حیثیت سے بھی بالاتفاق افضل ہیں۔ جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ معلم کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں: ایک محض مبلغ و سفیر ہوتا ہے جس کے متعلق محض بات کا پہنچا دینا ہے، اس میں معلم کا افضل ہونا ضروری نہیں، اگر بادشاہ اپنے وزیر کے پاس کسی خاص قاصد کے ہاتھ کوئی پیام بھیجے تو یہ قاصد وزیر سے افضل ہوجائے گا؟ دوسری حیثیت اُستاد و اتالیق ہونا جس کے متعلق متعلّم و شاگرد کی تربیت بھی ہے، اس میں معلم کا افضل ہونا ضروری ہے، سو جبرئیل ؑ آپﷺ کے معلم بالمعنی الاوّل ہیں نہ کہ بالمعنی الثانی۔ کیوںکہ مربی بمعنی ثانی اتالیق و تربیت دہندہ، حسبِ تصریح حدیث: عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ فَأَحْسَنَ تَعْلِیْمِيْ، وَأَدَّبَنِيْ رَبِّيْ فَأَحْسَنَ تَأْدِیْبِيْ (میرے رب نے مجھے تعلیم دی کیا اچھی تعلیم دی، میرے رب نے مجھے ادب سکھایا کیا اچھا ادب سکھایا) خود حضرت جل وعلا شانہ بلاواسطہ ہیں اور رسول اللہﷺ اُمت کے لیے معلم بمعنی ثانی ہیں، بس آپﷺ کی اور جبرئیل ؑ کی معلّمیت میں بڑا فرق ہے، پس معتزلہ کی یہ بہت بڑی گمراہی ہے عقیدئہ واجبہ میں۔ اور مثلاً میں نے ایک مقام پر بہ چشم خود دیکھا ہے کہ ایک صاحب نے ایک حدیث ڈھونڈنے کے لیے موطأ امام مالک1 کا نسخہ الماری میں سے نکالا اور اس کو کھڑے کھڑے فرش پر زور سے پٹک کر مارا، اہلِ مجلس میں سے ایک شخص نے کہا کہ ’’میاں! حدیث کی یہ بے ادبی‘‘؟ تو وہ جواب میں فرماتے ہیں:’’ میں نے بے ادبی کیا کی ہے؟ اس کی گرد جھاڑی ہے۔‘‘ جب قیامت میں ان کی گرد جھڑے گی تب حقیقت معلوم ہوگی، سو یہ اس خشک دماغی کا اضلال ہے عملِ واجب میں۔ اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا۔ وَلَنِعْمَ مَا قِیْلَ: از خدا جوئیم توفیقِ ادب بے ادب محروم ماند از فضل رب ہم اللہ تعالیٰ سے ادب کی توفیق طلب کرتے ہیں، اس لیے کہ بے ادب اللہ تعالیٰ کے فضل سے محروم رہتاہے۔ بے ادب تنہا نہ خود را داشت بد بلکہ آتش در ہمہ آفاقِ زد بے ادب نے تنہا اپنے آپ کو ذلیل نہیں کیا ہے، بلکہ ساری دنیا میں آگ لگادی۔