آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی ہے ۔ ( ابن کثیر) اس معاملہ میں جو روایات حضرت معاویہ ،حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس وغیرہ رضی اللہ تعالی عنہم بزرگوں سے مروی ہیں ان کی بناء پر علمائے سلف کی بڑی تعداد ستائیسویں رمضان ہی کو شب قدر سمجھتی ہے غالبا کسی رات کو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس لئے متعین نہیں کیا گیا کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گذاریں اور کسی ایک رات پر اکتفاء نہ کریں لوگوں کی تقدیر کی طرح شب قدر کو مبہم اسی حکمتِ الہی کے تحت رکھا گیا ہے کہ لوگوں میں بے فکری اور بے عملی نہ پیدا ہو جائے اس لئے اسرار الہی کو پردہ میں رکھا گیا ۔ (انوار القرآن ) مسئلہ :دو سرے لفظوں میں اشکال کی تقریر اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا کے مطالع مغارب چونکہ مختلف ہوتے ہیں اس لئے شب قدر بھی ہر جگہ مختلف ہو نی چاہئے ۔ پھر ایک متعینہ رات کو شب قدر کس طرح کہا جارہا ہے اس صورت میں جواب کی تقریر اس طرح ہو گی کہ پھر اس میں بھی آخرکیا حرج ہے کہ شب قدر کی برکات بھی مختلف جگہ مختلف ہوں کسی جگہ کسی وقت اور کسی کو کسی وقت اور فرشتے بھی مختلف جگہ مختلف اوقات میں آئیں ۔ آخر نماز روزوں میں بھی تو اوقات اور تاریخوں کا اختلاف رہتا ہی ہے اسی طرح شب برآت شب قدر کے مختلف الاوقات ہونے کو سمجھ لیا جائے ۔(انوار القرآن از شیخ الحدیث مولانا نعیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ) شب قدر کی تعیین نہ کرنے میں مصلحتیں علماء کرام نے شب قد ر کو پوشیدہ رکھنے یعنی مقرر کر کے یوں نہ بتانے کے بارے میں کہ فلاں رات کو شب قدر ہے چند مصلحتیں بتائی ہیں ۔ اول : یہ کہ اگر تعیین باقی رہتی تو بہت سے کوتاہ طبائع دوسری راتوں کا اہتمام بالکل ترک کردیتے اور مو جودہ صورت میں اس احتمال پر شاید آج ہی شب قدر ہو متعدد راتوں میں عبادت کی تو فیق نصیب ہو جاتی ہے ۔ دوسری : یہ کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو معاصی یعنی گناہ کئے بغیر نہیں رہتے ۔ تعیین کی صورت میں اگر باوجود معلوم ہو نے کے معصیت کی جرات کی جاتی تو یہ بات سخت اندیشہ ناک تھی ۔ تیسری : یہ کہ تعیین کی صورت میں اگر کسی شخص سے وہ رات چھوٹ جاتی تو آئندہ راتوں میں افسردگی کی