آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرات کے پاس صدقۂ فطر کی کثیر رقم کیسے جمع ہے ، تعجب ہوتا ہے اور افسوس بھی ،اگر واقعی آپ لوگوں کی مالی حالت مدرسیہ بنانے کے قابل نہ اس وقت ہے نہ مستقبل قریب میں ہونے کی توقع ہے تو اس رقم کا شرعی حیلہ کرکے مدرسہ کے لئے زمین خریدی جاسکتی ہے۔ بلا اضطراری حالت اور بدون عذر شرعی کے حیلہ کر کے بھی یہ رقم زمین خرید نے میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔صدقۂ فطر کے اصل حق دار فقراء و مساکین ہیں ان کی حق تلفی ہوگی ۔ فقط واﷲ اعلم ۔ ( فتاوی رحیمیہ ج۷؍ ص ۲۰۱ ) صدقۂ فطرسے متعلق بعض مسائل سوال:جس مالدار پر صدقۂ فطر واجب ہو مگر وہ ادا نہ کر سکا تو عید کے بعد ساقط ہوجائے گا یا ادا کرنا لازم ہے الجواب حامداً ومصلّیاً ومسلّماً : صاحب نصاب پر صدقۂ فطر مرد ہو یا عورت، روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں بہر صورت واجب ہے،مرد اپنی طرف سے اور اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے ادا کرے (عن نفسہ) متعلق یجب وان لم یصم لعذر و طفلہ الفقیر(شامی ج۲/ص۱۰۱ باب صدقۃ الفطر) عورت پر اپنی اولاد کا صدقۂ فطر واجب نہیں ، جس پر صدقہ فطر واجب ہو اور وہ عید سے قبل یا بعد میں ادا نہ کرے تو اس سے ساقط (معاف) نہ ہوگا، ادائیگی ضروری ہے ورنہ گنہگار ہوگا وان اخروھا عن یوم الفطر لم تسقط وکان علیھم اخراجھا (ھدایۃ ۱/۱۹۱ ایضاً) صدقۂ فطر کی مقدار پونے دو کلو گیہوں یاساڑھے تین کلو جو ہے وہ دیوے یا اس کی قیمت بازار کے بھائو سے دے دے ، راشن ڈپو کی قیمت کا اعتبار نہیں ، البتہ جن کو راشن ڈپو سے گیہوں ملتے ہیں وہ لوگ صدقہ فطر میں راشن والے گیہوں دے سکتے ہیں مگر قیمت دینے کی صورت میں بازار کی قیمت کے حساب سے دینا ہوگا اگر گیہوں اور جو کے سوا کوئی اور اناج جیسے چاول جوار، مسور، باجرا، چنا دیوے تو اتنادے کہ پونے دو کلو گیہوں یا ساڑھے تین کلوجو کی قیمت کے بقدر ہو ،قیمت دے تو پونے دو کلو گیہوں یاساڑھے تین کلو جو کے برابر دے ۔(نصف صاع) فاعل یجب (من برا و دفیقہ او سویقہ اوزبیب او صاع تمراوشعیر) ولو ردیئاً وما لم ینص علیہ کذرۃ وخبز بعتبر فیہ القیمۃ (درمختار ملخصاً)(قولہ ولو ردیئا) قال فی البحر واطلق نصف الصاع والصاع والم بقیدہ بالجید لا نہ لو ادی نصف صاع ردی جاز (الی قولہ) وان ادی قیمۃ الردی ادی الفضل کذافی الظھیریۃ ا ھ(شامی ۲/۱۰۳ باب صدقۃ الفطر )(بہشتی زیور حصہ ۳ ص ۳۶) ایک فقیر کو ایک صدقہ ٔفطر دینا اولیٰ ہے ، کم دینا بھی درست ہے ایسی ہی یک سے زائد بھی دی سکتے ہیں…مستحب آن ست کہ یک فقیر را آں قد دہد کہ درآں روز محتاج سوال نبا شد (مالا بد منہ ص ۸۱)