آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان یتیم بچوں کے واسطے کھانے کپڑے کا انتظام بطور خود کرتاہے ، بچوں کے ہاتھ میں روپیہ پیسا نہیں دیتا ہے ، اوروہ نہ روپیہ زکوۃ کا کسی اور کو دیکر حیلہ تملیک کرتا ہے ، دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ ایسا روپیہ کسی مستحق زکوۃ کو تملیک کراکر یتیم بچوں کے واسطے خرچ کرنا چاہیئے ، ورنہ زکوۃ دینے والوں کی ادا نہ ہوگی ،پس ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ الجواب حامداً ومصلّیاً ومسلّماً : تملیک ان سب رقموں میں شرط ہے ، خواہ روپیہ کی ہو یا روپیہ سے جو چیز خریدی جائے اس چیز کی ہو ، مثلاً کپڑا دیدیا ، مگر اس میں چند شرطیں ہیں ، اول تو یہ کہ اہل رقم کا اذن ہواس خریداری کے لئے ، دوسرے یہ کہ وہ چیز قیمت میں اس رقم کے برابر ہو، تیسرے یہ کہ اُن بچوں کی ملک کی جائے ، مثلاً اگر کھانا بٹھا کر کھلادے تو ادا نہ ہوگی ، نیز لکڑی وغیرہ کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا ۔ مصرف زکوۃ اپنا علاقہ ہے یا دیگر علاقوں میں مصیبت زدگان بھی ہیں ؟ سوال: کیا یہ ضروری ہے کہ زکوۃ جس علاقہ سے وصول کی جائے اسی میں صرف کی جائے ، یا اس علاقہ سے باہر ،یا پاکستان سے باہر تالیف قلوب کے لئے ، یاآفات ارضی وسماوی مثلاً زلزلہ ، سیلاب وغیرہ کے مصیبت زدگان پر خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں آپ کے نزدیک علاقہ کی تعریف کیا ہے ؟ الجوابحامداً ومصلیاً ومسلماً: بہتر یہ ہے کہ جس بستی کی زکوۃ ہو اسی بستی میں خرچ کی جائے ، بلا ضرورت دوسری بستی میں بھیجنا مکروہ تنزیہی ہے، لیکن اگر دوسری بستی میں زیادہ حاجت مند ہوں ، یالڑکی کے رشتہ دار ہوں ، یازیادہ دیندار ہوں، یا طلباء علم دین ہوں تو مکروہ نہیں ،پاکستان سے باہر بھی بوقت حاجت بھیجنا درست ہے ،بشرطیکہ مصرف میں خرچ کیاجائے ۔ (فتاوی محمودیہ ج۹؍۳۴۹) دوران سال اگر پیسہ بڑھ گیا مسئلہ:کسی کے پاس دوہزار روپیہ رکھے تھے سال پورا ہونے سے پہلے پانچ سوروپے اور آگئے تو سال پورا ہونے پر پورے ڈھائی ہزار روپے کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ سال کے اندر جو بھی مال آجائے سال ختم پر اسے بھی شامل کرکے مال زکوۃ میں دینا ہوگا۔ صاحب نصاب آدمی کے پاس سا ل کے درمیان میں مزید مال آجائے تو اس میں زکوۃ کا کیا حکم ہے ؟