آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لایمکن حملہ علی المنذور لتصریحہ بالسنیۃ ولا علی غیرہ لتصریحہ بعد بان اقلہ نفلاساعۃ فلزم ان الصوم لیس من شرطہ ۔۔۔۔۔بان الصوم انما ہو شرط فی المنذور فقط دون غیرہ الخ۔(البحر الرائق ۲۔۲۹۹ باب لاعتکاف) (۱)قال العلامۃ الشامی ۔(قولہ المذہب)وہو روایۃ الاصل ومقابلہ روایۃ الحسن انہ شرط للتطوع ایضا وہو مبنی علی اختلاف الروایۃ فی ان التطوع مقدر بیوم اولاففی روایۃ الاصل غیرمقدرفلم یکن الصوم شرطا لہ وعلی روایۃ تقدیرہ بیوم وہی روایۃ الحسن ایضا یکون الصوم شرطالہ کما فی البدائع وغیرہا قلت ومقتضی ذلک ان الصوم شرط ایضا فی الاعتکاف المسنون لانہ مقدر بالعشر الاخیرحتی لو اعتکفہ بلاصوم لمرض اوسفر ینبغی ان لایضح عنہ بل یکون نفلا فلا تحصل بہ اقامۃ سنۃ الکفایہ ویئویدہ قول الکنز سن لبث فی مسجد بصوم ونیۃ فانہ لایمکن حملہ علی المنذورلتصریحہ بالسنیۃ ولاعلی التطوع لقولہ بعدہ واقلہ نفلا ساعۃ فتعین حملہ علی المسنون سنۃ مئوکدۃ فیدل علی اشتراط الصوم فیہ وقولہ فی البحر لایمکن حملہ علیہ لتصریحہم بان الصوم انما ہو شرط فی المنذورفقط دون غیرہ فیہ نظرلانہم انما صرحو ابکونہ شرطا فی المنذور غیر شرط فی التطوع وسکتواعن بیان حکم المسنون لظہورانہ لایکون الا بالصوم عادۃ ولہذا قسم فی متن الدررالاعتکاف الی الاقسام الثلاثہ المنذوروالمسنون والتطوع ثم قال والصوم شرط لصحۃ الاول لا الثالث ولم یتعرض للثانی لما قلنا ولوکان مرادہم بالتطوع مایشمل المسنون لکان علیہ ان یقول شرط لصحۃ الاول فقط الخ۔(ردالمحتارہامش ۃالدرالمختار ۲ ۔۱۴۱ باب الاعتکاف ) (فتاوی فریدیہ۴؍۲۰۱) اعتکاف مسنون میں روزہ ضروری ہے سوال: رمضان المبارک میں معتکف بیمار ہونے کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے؟ اعتکاف فاسد ہوگا یا نہیں؟ (۲) معتکف جب حاجت کے لئے گھر جاتا ہے تو چلتے ہوئے گھر اور راستے میں کسی سے بات کرسکتا ہے یا جواب دے سکتاہے؟ الجواب حامداًومصلیاًومسلماً: شامی ص۱۴۱ج ۲میں ہے کہ اعتکاف مسنون (یعنی رمضان کے آخری عشرے کے اعتکاف) میں روزہ شرط ہے۔لہٰذا اگر روزہ چھوڑے گا تو اعتکاف باقی نہ رہے گا ۔قلت ومقتضیٰ ذلک ان الصوم شرط ایضاً فی الاعتکاف المسنون لا نہ مقدر بالعشرالا خیر حتی لواعتکفہ بلا صوم لمرض او سفر ینبغی ان لا یصح عنہ بل یکون نفلاً فلا تحصل بہ اقامۃ سنۃ الکفایۃ اھ (۲)راہ چلتے ہوئے بات چیت کی جاسکتی ہے ایسے ہی گھر جاکر ،مگر رکے نہیں رواں (چلتا)رہے ۔ فقط واللہ اعلم (خیرالفتاویٰ ج۴؍ ۳۸،۱۳۹)