آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوئی ہے ۔ لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کی مشغولیت دعا کی مشغولیت سے افضل اور اعلی ہے اور وہ ہے تلاوت کلام اللہ میں لگنا، ایسے لوگ تو خال خال ہی ہیں ۔ جو اس قدر تلاوت کرتے ہو ں کہ دعا مانگنے کی فرصت ہی نہ ملتی ہو ، آج کل تلاوت کا ذوق ہی کہاں ہے کہ کوئی اس قدر قرآن مجید پڑھے کہ رات دن میں کسی وقت بھی دعا کی فرصت نہ ملے ، لیکن اگر کوئی سعادت مند بندہ ایسا ہو کہ نمازوں کو اہتمام کے ساتھ ادا کرتے ہوئے باقی وقت کو تلاوت ہی میں لگائے رکھے او راسی کو زندگی کا مشغلہ بنائے رہے تو اس کے لئے یہ عظیم خوشخبری ہے کہ اللہ جل شانہ اس کو مانگنے والوں سے بڑھ کر عطا فرمائیں گے اور اس کو ایسے انعام و اکرام سے نوازیں گے جو مانگنے والوں کو بھی میسر نہ ہوگا ۔ تلاوت کلام اللہ کیا چیزہے ؟ در حقیقت یہ شہنشاہ حقیقیکی ہمکلامی ہے ، جو شخص ہر وقت شاہی دربار میں حاضر رہے اور بادشاہ سے گفتگو کرنے میں ایسا انہماک ہو کہ اس کو اپنی ضرورت پیش کرنے کی فرصت ہی نہ ملے تو اس کو سوال کرنے کی اور بادشاہ سے مانگنے کی ضرورت نہیں ہو تی ہے اس کی حاجتوں کا بادشاہ کو خود خیال رہتاہے ، جب انعامات تقسیم ہو تے ہیں تو اپنے خصوصی درباریوں کا حصہ پہلے ہی محفوظ رکھ لیا جاتا ہے مانگنے والوں کو بہت کم اور درباریوں کو بہت زیادہ ملتا ہے ، ہر وقت تلاوت کرنے والا چونکہ ہمہ وقت شہنشاہ حقیقی کی ہمکلامی میں لگاہوا ہے اس لئے اس پر انعامات کی بے انتہا بارش ہو تی ہے ، جو کچھ مانگنے والوں کو ملے گا اس سے کہیں زیادہ اس خصوصی تعلق والے کو ملے گا جو تلاوت کلام پاک میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی حاجت پیش کرنے کی فرصت بھی نہیں پاتا یہ حدیث ہم نے یہاں یہ بتانے کے لئے نقل کی ہے کہ تلاوت کی وجہ سے دعامانگنے کی فرصت نہ ہو نا بھی ایک قسم کی دعا ہی ہے اور سب سے بڑی دعا ہے مگر کوئی ایسا کرنے والا تو ہو ، کوئی نا سمجھ اس کا یہ مطلب نہ لے لے کہ دعا بھی نہ کرے اور تلاوت بھی نہ کرے یا معمولی سی تلاوت کرکے دعا تر ک دعا کا طریقہ اختیار کرے ۔ (تحفۃ المسلمین از حضرت بلند شہری رحمۃ اللہ علیہ ص ۴۲۸) قرآن کریم باآواز بلند پڑھنے اور آہستہ پڑھنے کی فضیلت عن عقبۃَ بن عامر رضی اللہ عنہ قال سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقُول الجاہرُ بالقرآن کالجاہر بالصدقۃ والمسرُّ بالقرآنِ کالمسر بالصدقۃ۔ (ترمذی وابن حبان وقال الترمذی ہذا حدیث حسن غریب) ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اونچی آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا علانیہ صدقہ کرنے والے کی طرح ہے‘ اور آہستہ آ واز سے تلاوتِ قرآن کریم کرنے والا خفیہ طور پر صدقہ کرنے والے کی طرح ہے۔ (ترمذی وابن حبان)