آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وان اختلف بعضھم فی التقیید بقولہ فی رمضان کما فی ردالمحتار لکن یرد علیہ انہ یقتضی انہ لوصلی الوترجماعۃ فی غیر رمضان انہ لایجھر بہ وان لم یکن علی سبیل التداعی ویحتاج الی نقل صریح واطلاق الزیلعی یخالفہ وکذا ما یاتی من المتنفل باللیل لوام جھر فتامل ج۱ص۵۵۶ لکنہ لا یضرالحکم بجھرالمنفرد فی رمضان وانما یفید عدم تخصیص ھذا الحکم برمضان۔ واللّٰہ اعلم، ۶؍رمضان ۱۳۳۷ھ(تتمہ خامسۃ ص۹۴) (امداد الفتاوی ج ۱؍۳۰۰) وتربعدتہجدیابعد تراویح سوال: اگرتہجدپڑھاجاوے گا تو وتروں کا بعد تراویح پڑھنا اچھا ہے یا بعد تہجد؟ الجواب حامداًومصلیاً ومسلماً : بعدتراویح کیونکہ جماعت کی افضلیت زیادہ مہتم بالشان ہے وقت کی فضیلت سے۔ (امداد الفتاوی ج ۱؍۳۰۱) (۱) تارک واجب گناہ گار ہے (۲) وتر واجب ہے یا نہیں؟ (۳) وتر کا تارک گناہ گار ہے سوال: (۱) واجب کا تارک گناہ گار ہے یا نہیں ؟ (۲) نماز وتر واجب ہے یا نہیں (۳) وتر کا تارک گناہ گار ہے یا نہیں ؟ الجواب حامداًومصلیاً ومسلماً :(۱) واجب کا تارک اس شخص کے نزدیک گناہ گار ہے جو اس فعل کو واجب قرار دیتا ہے (۲) (۲) نما ز وتر میں ا مام ابو حنیفہ ؒ سے تین روایتیں ہیں (۳) یوسف بن خالد نے امام ابو حنیفہ سے یہ روایت کی کہ وتر واجب ہیں اور نوح ابن ابی مریم نے یہ روایت کی کہ وتر سنت ہیں اور حماد بن زید نے یہ روایت کی کہ وتر فرض ہیں اور امام محمد اور امام یوسف ؒ کے نزدیک وتر سنت ہیں ۔ (۳) ہاں امام ابو حنیفہ ؒ کے مذہب راحج یعنی وجوب وتر کے لحاظ سے تارک وتر گناہ گار ہے (۴) مگر دوسری روایت سنیت اور قول صاحبین پر گناہ گار نہیں اگرچہ مستحق ملامت ان کے نزدیک بھی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز کے واجب اور سنت ہونے میں اختلاف ہو اس میں تارک پر گناہ گار ہونے کا حکم بھی مختلف فیہ ہوگا اور جس کے واجب ہونے پر اتفاق ہو گا اس کے تارک پر گناہ گار ہونے کا حکم بھی متفق علیہ ہوگا یہ سب کلام مذہب حنفی کے ماتحت ہے ۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ ‘ دہلی (۲) إن السنۃ المؤکدۃ والواجب متساویان رتبۃ ً فی استحقاق الإثم بالترک الخ (رد المحتار‘ باب العیدین ۲/۱۷۷ ط سعید )