آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سوال: کسی نے سوروپیہ مثلاً زکوۃ کے نکال کر علیحدہ رکھدیئے لیکن اسی کے قبضہ میں رہے بلا کسی تملیک کرائے ہوئے وہ اس روپئے میں سے کسی کو قرض دے سکتاہے یانہیں؟ یازکوۃ کے روپئے کو تجارت میں لگادے،اورنفع کوبھی زکوۃ والوں کاحق سمجھے تو جائز ہے یانہیں ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً: جب تک وہ روپیہ جو بہ نیت زکوۃ علیحدہ رکھدیا ہے فقراء ومساکین کو نہ دیدیا جائے اور ان کو مالک نہ بنادیا جائے اس وقت تک وہ روپیہ صاحب نصاب کی ملک ہے ،اگراس کو کسی کو قرض دیدے یاتجارت میں لگادے تودرست ہے ،لیکن پھر جس وقت وہ روپیہ بعد واپس لینے کے یا اور روپیہ اپنے پاس سے زکوۃ میں دیوے توپھر نیت زکوۃ کی کرنی چاہئے ،اورتجارت میں جو نفع ہو وہ روپئے والے ہی کاہے ، صورت مسئولہ میں زکوۃ ادانہ ہوگی ،زکوۃ کی رقم سے بلاتملیک مستحق تجارت میں لگانا او ر قرض دینا درست نہیں ہے ۔ (و لا یخرج عن العہدۃ بالعزل بل بالأداء للفقراء ۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند ج۶ص۲۱۸) قرض کی زکوۃ سےمتعلق ایک اورسوال اور اس کا جواب سوال : ایک شخص نے قرض حسنہ دیا ہے اس کی زکوۃ دینی چاہیئے یا نہیں ؟ اور بعض ایسا ہے کہ جس کے عوض میں کچھ زیور گروی رکھا ہے ، اور بعض ایسا ہے کہ اس کے عوض زیورگروی نہیں رکھا ، کیا حکم ہے ؟ اگر کسی کے پاس کچھ روپیہ جمع ہے اس کی زکوۃ دی جاتی ہے ، اور ہمیشہ سال بہ سال کچھ اور روپیہ بھی ملتا اور جمع ہوتا رہتا ہے ، مگر یہ پچھلا روپیہ کچھ اتنا نہیں ہے کہ پہلے میں کچھ معتد بہ زیادتی کرے ، تواگر اس جمع شدہ روپے میں سے ہمیشہ زکوۃ دی جائے تو شاید کبھی ایسا وقت آئے کہ زکوۃ نکالتے نکالتے اتنا باقی رہ جائے کہ نصاب سے کم ہوجائے ، اس شبہ کا جواب مرحمت فرمائیں۔ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلّماً: قرض جو دیا گیا ہے اگر وہ تنہا یا دوسرے روپے موجود کے ساتھ مل کر بقدر نصاب ہے تو اس پر زکوۃ واجب ہے ، لیکن ادا کرنا زکوۃ کا بعد وصول قرض کے لازم ہوتا ہے، اگر قبل از وصول بھی زکوۃ دیدی جائے گی تو اد ا ہوجائے گی ، اور وہ قرض جس کے عوض کچھ زیور رہن رکھا ہوا ہے اور وہ قرض جس کے عوض کچھ رہن نہیں رکھا ہو حکم زکوۃ میں دونوں برابر ہیں ، دونوں کی زکوۃ بعد وصول کے ہی لازم ہوتی ہے ۔ (فتجب زکوتہا إذا تم نصاباً وحال الحول لکن لا فوراً بل عند قبض اربعین درہماً من الدین القوی کقرض وبدل مال تجارۃ ۔ د رمختار ۔ إذا تم نصاباً ۔ الضمیر فی تم یعود للدین المفہوم من الدیون ، والمراد إذا بلغ نصاباً بنفسہ أو بما عندہ مما یتم بہ النصاب ۔(رد المحتار باب زکوۃ المال ج۲/۴۷)