آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ترجیح رکھتاہے۔ صلے :الوصل اولیٰ کااختصارہے۔یہاں ملاکرپڑھنابہترہے۔ ق :قیل علیہ الوقف کاخلاصہ ہے۔ صل :قدیوصل کی علامت ہے۔یعنی کبھی ٹھہرابھی جاتاہے’کبھی نہیں۔لیکن ٹھہرنا بہترہے۔ قف :یہ لفظ ِ قِف ہے جس کے معنیٰ ہیں ٹھہرجاؤاوریہ علامت وہاں استعمال کی جاتی ہے جہاں پڑھنے والے کے ملاکرپڑھنے کااحتمال ہو۔ س یاسکتہ :سکتہ کی علامت ہے۔یہاں کسی قدرٹھہرناچاہئے۔مگر سانس نہ ٹوٹنے پائے۔ لا: لا کے معنیٰ نہیں کے ہیں۔یہ علامت کہیں آیت(گول دائرہ)کے اوپر استعمال کی جاتی ہے اورکہیں عبارت کے اندر۔ عبارت کے اندرہوتوہرگزنہیں ٹھہرناچاہئے۔آیت کے اوپرہوتواختلاف ہے۔بعض کے نزدیک ٹھہرجانا چاہئے ۔ بعض کے نزدیک نہ ٹھہرجاناچاہئے لیکن ٹھہراجائے یانہ ٹھہراجائے مطلب میں خلل واقع نہیں ہوتا۔وقف اس جگہ نہیں کرنا چاہئے جہاں عبارت کے اندر لکھا ہو۔ ک :کذٰلک کی علامت ہے یعنی جورمز پہلے سے ہے‘وہی یہاں سمجھی جائے۔ ( ۱۵) اولِ کلام سے تلاوت کی ابتداء کرنا تلاوت کرنے والے کو چاہئے کہ جب تلاوت شروع کرے تو ایسی آیت سے شروع کرے جو اول الکلام ہو ، جہاں سے قصہ شروع ہورہاہے اسکی ابتداء سے شروع کرے ، قصے کے بیچ سے تلاوت شروع نہ کرے مثلاً : {وإذا سمعوا ما أنزل إلی الرسول } ۔۔۔(الآیۃ) ، (جو کہ ساتویں پارہ کی ابتداء ہے ) سے شروع کرنے کے بجائے اس سے پہلی والی آیت یعنی {لتجدن أشد الناس} ۔۔( الآیۃ) سے شروع کرے کیونکہ ان دونوں آیتوں کا آپس میں بڑا ارتباط ہے ۔اسی طریقے سے پانچواں پارہ{ والمحصنات من النساء} ۔۔۔(الآیۃ) سے شروع کرنے کے بجائے اس سے پہلی والی آیت {حرمت علیکم أمہاتکم} سے شروع کرے کیونکہ ان دونوں آیات کا آپس میں گہرا ربط ہے ، یاد رہے کہ پاروں کی ابتداء اور انتہاء معانی کے اعتبار سے نہیں رکھی گئی بلکہ حروف کی تعداد کے اعتبار سے رکھی گئی ہے اس لئے پارے کی ابتداء وانتہاء درمیان کلام میں بھی ہوجاتی ہے ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے کی تنبیہات اپنی شہرئے آفاق کتاب التبیان فی آدابِ حملۃ القرآن میں فرمائی ہیں ( ص ۱۱۴ طبعۃ مکتبۃ المؤید ) ۔ (۱۶) مشکل کلمات کے معانی یاد کرنا قرآن حکیم میںتدبر یعنی غور وفکر کرنے کے لئے اور اسکا معنی سمجھنے کے