آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امانت کی رقم پرزکوۃ سوال : کسی شخص کے پاس ابتداء سال میں سرمایہ مبلغ ساڑھے پانچ سور وپے اور امانت کی رقم ایک سوروپے تھے ،جملہ ساڑھے چھ سو روپے ہوئے جو آخر سال میں حسب ذیل صورت میں ہے ،زکوۃ کس قدر رقم پر عائد ہوگی، ۱۵۰؍ اخراجات خاص میں صرفہ ہوا ، ۵۵؍اخراجات کا روبار میں صرف ہوئے ، ۶۰؍ کاروبار کی بابت لوگوں کے یہاں باقی ہے جو سردست کچھ وصول ہونے کی امید نہیں ، شاید آئندہ سال کچھ وصول ہو ۔ ۱۷۰؍ کاروبار کی چیز موجود ہے ، جس کے اوپر لاگت یہ ہے مگر سردست بازار ریٹ سے وصول ہونے کی امید ہے، ۱۷۰؍ حصہ داروں کے یہاں باقی پڑا ہے ، جو نقد لیا ہے سردست وصول ہونے کی امید نہیں ہے ، کام چلنے ونفع ہونے پر وصول ہوگا، ۴۰؍ کاروبار میں نقصان ، مکان وزمین خریدا گیا ہے ، ۱۰۵؍نقد موجو دہے ، جملہ میزان ۶۵۰ ؍ ہوئے ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً : امانت روپیہ جس شخص کے پاس رکھا جائے اس پر زکوۃ نہیں ہے بلکہ جس شخص کاروپیہ ہو اس پر زکوۃ فرض ہے ، جس قدر اپنا خاص روپیہ تھا اس میں سے جو اخراجات خاص وکاروبار اور مکان وزمین خریدنے میں صرف ہوا ، اس پر زکوۃ نہیں ہے ، جو ر وپیہ نقد موجود ہے یا جولوگوں کے یہاں باقی ہے اس پر زکوۃ ہے ، اور جوتجارتی مال ہے اس پر بھی زکوۃ ہے ۔ (۱) الزکوۃ واجبۃ فی عروض التجارۃ کائنۃ ما کانت (الفتاوی الہندیۃ الفصل الثانی فی العروض :۱ ؍ ۱۷۹ ) لیس فی ما دون عشرین مثقالامن ذہب صدقۃ فإذا کانت عشرین مثقالاً ففیہا نصف مثقال) ہدایۃ فصل فی الذہب :۱؍۱۹۵) (فتاوی امارت شرعیہ ج ۳؍۵۸۔۵۹) میت کے ترکہ سے زکوۃ وصول کرنے کا حکم سوال: متوفی کے ترکہ سے زکوۃ وصول کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہیئے ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً : ۔ متروکہ سے جبراً زکوۃ وصول نہیں کی جاسکتی ،البتہ اگر متوفی نے وصیت کی ہے اور مال ظاہر کی زکوۃ ہے تو وصول کی جاسکتی ہے ، ورنہ نہیں، اگر مال باطن ہو اور وصیت کی ہو تو حسب شرائط ورثہ اس وصیت کو پورا کریں ۔ (إذا مات من علیہ زکوۃ ، سقطت الزکوۃ عنہ بموتہ ، حتی أنہ إذا مات عن زکوۃ سائمۃ ،فالساعی لا یجبر الوارث علی الأداء ۔۔ ولو أوصی بأدائہا، لا تسقط بالإتفاق ، ولو أوصی بأداء الزکوۃ یجب تنفیذ الوصیۃ من ثلث مالہ ۔ التاتارخانیۃ : ۲؍۲۹۶، من جملۃ الأسباب المسقطۃ للزکوۃ)۔ (فتاوی محمودیہ ج؍۹) خیر الفتاوی میں ہے :واضح رہے کہ زکوۃ عبادت ہے، جو کہ مکلف کو ازخود