آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سوال: ایک شخص کے پاس رمضان میں دس ہزار روپے موجود تھے دوسرے سال رمضان آنے پر اس شخص کے پاس پچاس ہزار روپے پا ئے گئے ، ظاہر ہے کہ دس ہزار روپے پر تو سال گذرا ہے لیکن چالیس ہزارپر حولان حو ل نہیں ہوا ہے تو کیا اس شخص کو دس ہزار روپے سے زکوۃ ادا کرنی ہو گی یا پچاس ہزار روپے پر زکوۃ لازم ہوگی ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً : زکوۃ کے نصاب پر سال گزرنا ضروری ہے یہ ضروری نہیں کہ تمام رقم پر پورا سا ل گذرے ، صورت مذکورہ میں دوران سال جو آمدنی ہو ئی ہے اس سے بھی رمضان میں زکوۃ ادا کیجائے گی ، گویا مال مستفاد اگر چہ شعبان کے مہینے میں آیا ہو پھر بھی زکوۃ واجب ہو گی ۔ (فتاوی حقانیہ ج ۳ ؍۴۸۶۔ ۴۸۷) ضروری تنبیہ:زکوۃکا حساب چاند سے ہے یعنی مال ہونے پر جب چاند کے حساب سے بارہ ماہ گذر جائیں تو زکوۃ فرض ہوجاتی ہے بہت سے لوگ انگریزی مہینوں سے زکوۃ کا حساب رکھتے ہیں اس میں دس دن کی دیر تو ہر سال ہوہی جاتی ہے اور اس کے علاوہ ۳۶ سال میں ایک سال کی زکوۃ کم ہوجائے گی جو اپنے ذمہ فرض رہے گی۔ جو مالک نصاب نہ ہووہ کتنی مقدار زکوۃ کی لے سکتا ہے ؟ سوال : ایک شخص کے پاس کچھ زیور ہے مگر نصاب سے کم ہے ، اس شخص کو اگر کوئی شخص زکوۃ دینا چاہے تو کس مقدار تک یہ شخص لے سکتا ہے ؟ الجواب حامداً ومصلّیاً ومسلّماً : فی الدر المختار وکرہ إعطاء فقیر نصاباً واکثر ۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ شخص مذکور فی السوال کو اس قدر لینا تو بلا کراہت جائز ہے ، جس کو لے کر وہ اب بھی صاحب نصاب نہ ہوجائے ، اور زیادہ لینا مکروہ ہے ۔ ۔ (إمداد الفتاوی ج۲ ؍۱۷) حاشیۃ :لیکن اگر یہ شخص مقروض ہو یا عیال زیاد ہ رکھتا ہو کہ قرض ادا کرکے یا عیال کی حوائج میں صرف کرکے نصاب نہ رہے گا پھر مکروہ نہیں کذا فی الدر المختار ۔ حالت سفر میں طالب علم یا کسی مالدار کے زکوۃ لینے کا حکم سوال: اگر سفر میں کوئی مالدار طالب علم یا کوئی شخص صاحب نصاب ہو ،