آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اظہار کے مواقع ہاں اگر کہیں علانیہ زکوۃ دینے میں کوئی فائدہ ہو اورنقصان نہ ہو تو ایسے مواقع پر اظہار واعلان کے ساتھ زکوۃ دینی افضل ہے ، مثلاً امید ہو کہ اس میں دوسروں کو ترغیب ہوگی اور محتاج کی زیادہ مدد ہوجائے گی ، خود حضور اقدس ﷺ سے بعض واقعات مروی ہیں کہ آپ ﷺ نے علانیہ بعض مفلوک الحال واردین کی اعانت کرائی ہے ، اسی طرح اگر ضرورت مند خود برسر عام سوال کا ہاتھ بڑھادے تو زکوۃ دینے میں کوئی حرج نہیں کہ حیاء وغیرت کی چادر اس نے خود چاک کردی ہے ۔(احیاء العلوم مع الاتحاف ۴؍۱۸۸) اور یہاں صدقہ کے انکار میں سائل کی ہتک ہے نہ کہ اس کو دینے میں ۔ قرآن مجید میں جہاں اخفاء کے ساتھ زکوۃ کے اظہار کو بھی سراہا گیا ہے ، وہاں اظہار کے یہی مواقع مراد ہیں، علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ اخفاء کے ساتھ زکوۃ دینے کا تعلق فقراء ومستحقین سے ہے اور اظہار کے ساتھ زکوۃ ادا کرنے کا تعلق ’’ بیت المال ،، کے حوالہ کرنے سے ، (سیر ت النبی ۵؍۲۰۴) چنانچہ آنحضرت ﷺ جہاد یا کسی اجتماعی مقصد کے لئے لوگوں سے تعاون کی ہدایت فرماتے ،تو علانیہ اپنی امانتیں لانیں اور جمع کرنے کو فرماتے ، عاملین ِ جو آپ ﷺ کی طرف سے زکوۃ وصول کرنے پر مامور تھے،علانیہ زکوۃ وصول کرتے تھے، اسلام نے زکوۃ کا جو اجتماعی نظام قائم کیا ہے اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ دیوزہ گری اور عزت نفس سے محرومی کے بغیر حاجتمند وں کی تکمیل حاجت کا سامان فراہم کرتاہے ۔ دوسری فصل: مسائل زکوۃ کے بیان میں زکوۃ کس پر فرض ہے زکوۃ فرض ہونے کے لئے بہت بڑا مالدا ہونا ضروری نہیں ہے ، جو عورت یا مرد ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر روپیہ یا سوداگری کے مال کا مالک ہو وہ شریعت میں مالدار ہے اور اس پر زکوۃ فرض ہے۔(تحفۃ المسلمین ص۲۴۶ازحضرت بلند شہری قدس اللہ روحہ) زکوۃ کی مقدار ڈھائی فیصد اورہزار میں ۲۵ مسئلہ: جس مال پر زکوۃ فرض ہو سال پورا ہونے پر اس میں سے پورے مال کا چالیسواں حصہ یا چالیسویں کی نقد قیمت ادا کرکے فیصد ڈھائی روپے کا اور فی ہزار۲۵روپے کا حساب لگا لے۔ (تحفۃ المسلمین ص ۲۴۹از حضرت بلند شہری نور اللہ مرقدہ)