آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بالرعی المباح فی اکثر العام لقدر الدر والنسل والزیادۃ والثمن إلی قولہ لو اسامہا للحم (أی للأکل ) فلا زکوۃ فیہا کما لو أسامہا للحمل والرکوب ۔۔الخ فی رد المحتار لو حمل الکلأ إلیہا فی البیت لا تکون سائمۃ ۔ بحر ۔ اس عبارت سے امور ذیل مستفاد ہوئے: (۱) جس سال کے گزرنے پرزکوۃ واجب ہوتی ہے اس سال کے اکثر حصہ کی چرائی کا اعتبارہے (۲) جبکہ مباح گھاس کھلایا ہو اور خود رو گھاس مباح ہے ، محصول دینے سے مملوک نہیں ہوتا (۳) اگر گھاس گھر لاکر کھلایا توشرط وجوب زکوۃ نہیں پائی گئی ۔ واللہ اعلم (۴) کھانے کے لئے جو جانور پالا جائے اُس میں زکوۃ واجب نہیں ہے ، اسی طرح باربرداری یا سواری یا کاشتکاری کے لئے بھی ، کہ کاشتکاری بھی بار برداری کے حکم میں ہے ۔ (إمداد الفتاوی ج۲؍۵۶) تجارت کے لئے جانوروں کی زکوۃکس طرح ادا کریں؟ سوال: ایک شخص نے تجارت کے لئے بکرے ، اونٹ ، گھوڑے وغیرہ خریدے ، یہ جانور ایک سال میں کئی دفعہ بک جاتے ہیں، اور خریدے بھی جاتے ہیں، تو اب ان کی زکوۃ کس طرح ادا کی جائے گی ؟ الجواب : حامداً ومصلّیاً ومسلّماً : قیمت لگاکر اس کا چالیسواں حصہ سال ختم ہونے پر ادا کیا جائے ، پھر چاہے قیمت دیدی جائے اور چاہے اس قیمت کا جانور دیدیا جائے ۔ (وتجب الزکوۃ أیضاً فی عروض التجارۃ بلغت قیمتہا نصاباً من أحدہما ۔۔الخ مجمع الأنہر :۱؍۳۰۶ باب زکوۃ الذہب والفضۃ والعروض ) (فتاوی محمودیہ ج؍۱۴ص۱۴۴) نصاب سے کم جانوروں میں زکوۃ نہیں سوال: زید کے پاس ۳۵؍بھیڑ اور دو گائے ہیں اور ایک بھینس بھی ہے کل ۴۰؍عدد ہیں ، جنگل میں چرایا جاتاہے ، ان پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں ؟ اگرہے تو کس حساب سے ادا کی جائے ؟ الجواب : حامداً ومصلّیاً ومسلّماً : زیدکے پاس ۳۵؍بھیڑ ؍۲گائے ، بھینس ؍۱ ؍ اس مجموعہ میں زکوۃ واجب نہیں ، کسی کا بھی نصاب پورا نہیں ، اور ایک جنس کو دوسری جنس سے ملاکر نصاب پورا کرنے کا حکم نہیں ہاں یہ جانور اگر تجارت کے لئے ہوں تو زکوۃ قیمت کے اعتبار سے چالیسواں حصہ واجب ہوگی ۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔ (فتاوی محمودیہ