آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ثم اجاز ۔ شرح الطحاوی ، ولو تصدق عن غیرہ بغیر امرہ جازت الصدقۃ عن نفسہ ولا تجوز عما نوی عنہ وإن اجازہ ورضی بہ ، وہذا إذا کان المال الذی تصدق بہ مال نفسہ ، فأما إذا کا ن المال مال المتصدق عنہ فإن اجازہ جاز ، وإن کان المال قائماً ،وإن کان المال ہالکاً جاز عن التطوع ۔ الفتاوی التاتارخانیۃ ۲؍۲۸۴ کتاب الزکوۃ ) بالغ اولاد کے مال میں خود اولاد کے ذمہ زکوۃ ہے ، اس کی اجازت سے والد دیدے تب بھی ادا ہوجائیگی ،( ومثل ہذہ الولایۃ لا تتأدی بہا العبادات بخلاف ما إذا وکل بالأداء بعد البلوغ ، فتلک نیابۃ عن اختیار ، وقد وجدت النیۃ والعزیمۃ منہ ، وبہ فارق صدقۃ الفطر فإن وجوبہا لمعنی المؤنۃ حتی تجب علی الغیر بسبب الغیر وفیہ حق للأب، فإن لو لم فوجب فی مالہ احتجنا إلی الإیجاب علی الأب کما إذا لم یکن للصبی بخلاف الزکوۃ ۔ المبسوط للسرخسی ۔ ۲؍۲۱۹کتاب الزکوۃ۔بارہ سور وپیہ جو زید کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد موجود ہیں اس کی زکوۃ زید کے ذمہ ہے ، زکوۃ چالیسواں حصہ ہے یعنی بارہ سو روپیہ کی زکوۃتیس روپے ہے۔ (فتاوی محمودیہ ج؍۹) کرایہ کی اشیاء پر زکوۃ کے قواعد سوال : جو مکان ، زیورات ، دوسر ی چیزیں کرایہ پر دی جائیں ان پر اورٹیکسی گاڑی موٹر وغیرہ پر زکوۃ لگانے کے کیا قاعدے ہیں ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً: سونے چاندی کے زیورات پر بہر صورت زکوۃ ہے ،کرایہ کو دخل نہیں،دوسری کرایہ کی چیزوں پر زکوۃ نہیں،اگروہ کرائے کے لئے ہوں تو ان پر زکوۃ واجب ہوگی،جو چیزیں کرایہ پرچلتی ہیںان کی آمدنی پر شروط کے موافق زکوۃ ہوگی۔ (فتاوی محمودیۃ ج؍۹) خیر الفتاوی میں ہے : جو چیز کرایہ پر چلائی جائے مثلاً مکانات ، شامیانے ، دیگیں ،سائیکل ،موٹرگاڑی وغیرہ اسی طرح ملمع کے زیورات جو کرایہ پر دینے کے لئے تیارکئے گئے ہوں ان سب پر زکوۃ نہیں ہے ،البتہ ان سب کی آمدنی سے جو سرمایہ جمع ہوگا، اس پر بعد حولان حول زکوۃ واجب ہوگی ، ہاں اگر ایک شخص ان کو تجارت کے لئے خریدتا ہے ، تو زکوۃ واجب ہوجائے گی ،لیکن اگرپھر کرایہ پردینا شروع کردے تو زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔ البتہ سونے چاندی کے زیورات اگرچہ وہ کرایہ پر بھی دیئے جائیں تب بھی ان پرزکوۃ واجب ہے ، کیونکہ جب استعمال کرنے سونے اور چاندی کے زیورات کی زکوۃ ساقط نہیں ہوئی تو کرایہ پر دینے کی وجہ سے بھی ساقط نہیں ہوسکتی ۔ ( قاضی خان ج۱؍ ۲۹۱)، (خیرا لفتاوی ج؍۳) {آٹھواںباب } فضائل و مسائل صدقہ فطر