آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آپس کا جھگڑا بن گیا ۔ جس سے آپس میں جھگڑے کی مذمت کا علم ہوا۔ لطیفہ امت کے تعامل کے پیش نظر ترجیح نظر ستائیسویں شب کو ہے حتی کہ بعض بطور لطیفہ علمی یہ کہتے ہیں کہ اس سورت میں ’’ لیلۃ القدر ،، کے الفاظ تین بار آئے ہیں ۔ اور اس جملہ میں نو حرف ہوتے ہیں پس اس طرح ستائیس کے عدد کی طرف اشارہ نکل سکتاہے ۔ اور یہ بات بھی عجیب ہے کہ رمضان کی تراویح اگر بیس رکعت پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں ایک رکوع تلاوت کیا جائے تو ستایئسویں شب کو قرآن کریم ختم ہو جاتا ہے اس طرح حفاظ کو رکوع شمار کرنے کی زحمت نہیں ہوتی ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات ہے ۔ اکیسویں ‘ تیئسویں ‘ پچیسویں ‘ ستائیسویں ‘ انتیسویں یا آخری ( مسند احمد ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جبکہ مہینہ ختم ہونے میں ۹ دن باقی ہوں یا سات دن باقی ہوں یا پانچ دن (بخاری ) اکثر اہل علم نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد طاق راتوں سے ہے ۔ اکثر اہل علم نے یہ لیا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مراد طاق راتوں سے تھی ۔ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ ۹ دن باقی ہوں یا سا ت دن یا پانچ دن یا تین دن یا آخر رات مراد یہ تھی کہ ان تاریخوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو ۔ (ترمذی ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت ہے کہ تحرو ا لیلۃ القدر فی العشر الاواخر من رمضان و عن ابن عمر فاطلبوا فی الوتر منہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخردس راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری مسلم احمد ترمذی ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تازیست رمضان آخری دس راتوں میں اعتکاف فرمایا ہے ۔ اگر شب قدر کو ان راتوں میں دائر سائر اور ہررمضان میں مشتمل ہونے والا مانا جائے تو یہ سب روایات حدیث اپنی اپنی جگہ درست اور صحیح ہو جاتی ہیں کسی میں تاویل کی ضرورت نہیں ر ہ جاتی اسلئے ابو قلابہ ‘ امام مالک ‘ امام احمد بن حنبل ‘ سفیان ثوری ‘ اسحاق راہویہ ‘ ابوثور ‘ مزنی ابن خزیمہ ‘ وغیرہ اکثر فقہاء نے شب قدر کو عشرہ اخیر میں منتقل ہونے والی رات قرار دیا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی ایک روایت یہی ہے ۔ اگر چہ دوسری روایت معین رات ہونے