آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کریمہ یہ ہے {یٰا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ } (سورئہ بقرۃ:آیت؍۲۶۷) اے ایمان والو ـ ! خرچ کرو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور اس چیز میں سے جو ہم نے نکالی ہے تمہارے لئے زمین سے ۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ اس آیت میں لفظ کسب (کمائی) آیا ہے ، اور کسب کہتے ہیں اس چیز کو جو محنت ، مشقت سے حاصل ہو اس لئے اس لفظ میں وہ مال بھی داخل ہے جو کسی نے اپنی محنت مزدوری کے ذریعہ حاصل کیا ہو، اور اموال تجارت بھی جن کو محنت مشقت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور وہ ما ل بھی جو میراث میں ملا ہو کیونکہ وہ اگرچہ وارث کی بلا واسطہ کمائی نہیں ہے مگر اس کے موئی کی کمائی ہے جو ایک حیثیت سے اسی کی کمائی کہی جاسکتی ہے ۔ اس آیت میں سونے چاندی کو ایک ساتھ ذکر کرنے میں اس طرف بھی اشارہ پایا گیا ہے کہ یہ دونوں جنسیں ایک حیثیت سے ایک ہی ہیں ، اگر ان کا نصاب الگ الگ پورا نہ ہو مگر دونوں سے مل کر نصاب پورا ہوجائے تب بھی زکوۃ واجب ہوگی کما صرح بہ الفقہاء (قاطبۃ) اور وہ چیزیں جو زمین سے اللہ تعالی نے پیدا کی ہیں اس میں زرعی زمین اور باغات کی پیداوار بھی داخل ہے اور معادن یعنی کانوں سے نکلنے والی سب دھاتیں اور مختلف چیزیں بھی او ر وہ دفینہ وخزانہ بھی جو کسی زمین سے برآمد ہو ۔ اور زرعی زمین اور باغات اور درختوں کی پیداوار کے متعلق ایک مستقل آیت بھی سورئہ انعام میں وارد ہوئی ہے { وَآتُوْا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } یعنی ادا کرو حق کھیتی اور درختوں کے پھلوں کا ان کے کاٹنے کے دن ۔ اما م قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور طاؤس وحسن بصری رحمۃ اللہ علیہماسے نقل کیا ہے کہ اس سے مرادوہ ہے جو زرعی زمینوں وغیرہ کی پیداوار پرعائد ہے ، اور مویشی پر زکوۃ کا حکم نبی اکرم ﷺ نے ایک مستقل صحیفہ میں لکھواکر حضرت عمر و بن حزم رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کے سپرد فرمادیا تھا۔ (قرآن میں نظام زکوۃ مع احکام زکوۃ ۔ از حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ ومفتی محمد رفیع عثمانی ) زکوۃ کی مقدار مقدار زکوۃ کس مال میں کس حساب سے لی جائے اس کے متعلق اتنی بات تو قرآن کریم نے خود واضح فرمادی کہ اس کا تعین حق تعالی نے خود فرمادیا ہے اس میں کسی کی رائے کو دخل نہیں ،پھر اس تعین کا بیان اور تشریح جو رسول اکرم ﷺ نے فرمائی اس سے معلوم ہوا کہ مقدار زکوۃ کا تعین عین عقل وحکمت کے مطابق ا س اصول پر ہوا ہے کہ جس مال کی تخلیق براہ راست دست قدرت سے ہوئی ہے اس کی پیداوار میں انسان کا کوئی دخل نہیں اس میں مقدار زکوۃ سب سے زیادہ رکھی