آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الزکوۃ) ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد فرمایا اور کسی نے اختلاف نہیں کیا اس طرح اس پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع واتفاق ہوگیا،بعد کو فقہاء نے بھی اس پراجماع نقل کیا ہے ، حافظ ابن رشد کابیان ہے ’’ فأما معرفۃ وجوبہا فمعلوم من الکتاب والسنۃ والاجماع فلا خلاف فی ذلک ،،(بدایۃ المجتہد ۱؍۲۴۴،کتاب الزکوۃ) اس کا وجوب کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ (اسلام کا نظامِ عشروزکوۃ: ص ۲۴؍ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی) زکوۃ کب فرض ہوئی ؟ سوال: زکوۃ کس سن میں فرض ہوئی ؟ الجواب : حامداً ومصلیاً ومسلماً: احادیث وآثار سے یہ معلوم ہوتا ہے اور فرائض خمسہ کی تاریخ تشریع سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ سب سے پہلے پنچگانہ نماز یں شب معراج میں مسلمانوں پر فرض ہوئیں ،پھر مدینہ طیبہ میں سنہ ۲ھ میں روزے فرض ہوئے اور اس کے ساتھ ہی زکوۃ فطر فرض ہوئی تاکہ روزہ دار لغو اور رفث سے پاک ہوجائے اور عید کے روز مسکینوں کی امداد ہوجائے ، بعد ازاں زکوۃ مع نصاب اور مقادیر فرض ہوئی ۔ (دیکھئے فقہ الزکوۃ ۱۰۱ جلداول ، وفتاوی دار العلوم ج۶؍ص ۴۱، بحوالہ مسائل زکوۃ ص ۲۷) زکوۃ کی فرضیت صحیح یہ ہے کہ اوائل اسلام ہی میں مکہ مکرمہ کے اندر نازل ہوچکی تھی جیساکہ امام تفسیر ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ نے سورئہ مزمل کی آیت {فَأَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَآتُوْا الزَّکٰوۃَ ۔۔۔الایۃ} سے استدلال کیا ہے ، کیونکہ یہ سورت بالکل ابتداء وحی کے زمانہ کی سورتوں میں سے ہے ، اس میں نماز کے ساتھ زکوۃ کا بھی حکم ہے ،البتہ روایات واحادیث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء اسلام میں زکوۃ کے لئے کوئی خاص نصاب یا خاص مقدار مقرر نہ تھی بلکہ جو کچھ ایک مسلمان کی اپنی ضرورتوں سے بچے رہے وہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا،نصابوں کا تعین اور مقدار ِ زکوۃ کا نظام محکمانہ انداز کا فتح مکہ کے بعد عمل میں آیا ہے ۔ (معارف القرآن ج۴؍۳۹۴) ہجرت کے سے پہلے مکہ زمانہ قیام زکوۃ کا حکم تھا ، چنانچہ سورئہ مؤمن ، ونمل اور سورئہ لقمان کی بالکل ابتدائی آیتوں میں اہل ایمان کی لازمی صفات کے طور پر اقامت ِ صلاۃ یعنی نماز قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنے کا ذکر موجود ہے ، جبکہ یہ تینوں سورتیں مکی ہیں، لیکن مکی دور میں زکوۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ اللہ کے حاجت مند بندوں پر اور خیرکی دوسری راہوں میں اپنی کمائی صرف کی جائے ۔ نظام زکوۃ کے تفصیلی احکام اس وقت نہیں آئے تھے وہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں آئے ،پس مؤرخین اور مصنفین نے یہ لکھا ہے کہ زکوۃ کا حکم ہجرت کے بعد دوسرے سال میں یا اس کے بعد میں آیا، ان کا مطلب غالباً یہی ہے کہ