آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
( کفایۃ المفتی ج ۳؍ ۳۹۳) ایک حافظ کا دو مسجدوں میں تراویح پڑھانا سوال: بعض حافظ ایسا کرتے ہیں کہ مسجد میں تراویح پڑھا کر آتے ہیں پھر اسی وقت دوسری مسجدمیں بھی پڑھا دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ۔ الجواب حامداًومصلیاً ومسلماً:مفتی ظفیرالدین صاحب نے فتاوی دار العلوم یوبندمیں بین القو سین لکھا ہے کہ عالمگیری(۱) میں اسکو ناجائز بتایا ہے اور اسی پر فتوی ہے۔ (۱)عالمگیری میں سوال مذکور کا جواب عدم جواز لکھا ہے ۔ الفاظ یہ ہیں امام یصلی التراویح فی مسجدین فی کل مسجد علی الکمال لایجوز کذا فی محیط السرخسی، الفتویٰ علی ذالک کذا فی المضمرات (عالمگیری مصری ج ۱ ص ۱۰۹ باب التراویح ۔ط۔س۔ج۱ص۱۱۶) (فتاوی دار العلوم دیوبندج۴؍۲۵۹ ) ایک مسجد میں مکمل تراویح پڑھنے کے بعد دوسری مسجد میں تراویح میں شریک ہونا جس صورت میں لوگوں کے جمع ہونے سے مسجد کی بے تعظیمی ہوتی ہے ایسی صورت میں چپکے سے ختم کر دینا اور کسی کو خبر نہ کرنا بہت بہتر اور مناسب ہے اور جس شخص نے بیس تراویح پڑھ لی ہوں پھر کسی دوسری مسجد میں تراویح ہوتی دیکھے تو شریک ہو جاوے کچھ حرج نہیں بلکہ ثواب ہے۔ (فتاوی رشیدیہ ص۳۹۳) تروایح کے لئے پختہ حفظ والے کو اما م بنایا جائے سوال:دو حافظ ہیں اور دونوں متقی ہیں ان میں سے ایک صاحب کو تو رمضان میں محراب سناتے وقت بہت زیادہ متشابہ لگتے ہیں اور دوسرے صاحب کو بہت کم جن صاحب کو متشابہ زیادہ لگتے ہیں وہ بقد ر ضرورت علم صرف و نحو فارسی اور مسائل دینیہ سے واقف ہیں اور پیشہ سے سلائی کا کام کرتے ہیں اور جن صاحب کو متشابہ کم لگتے ہیں وہ حفظ کے علاوہ مسائل دینیہ سے ناواقف ہیں اور قوم کے مراثی ہیں مگر اپنے حرام پیشے سے تائب ہیں ان دونوں میں سے جامع مسجد کی پنجگانہ امام کے لئے کس کو مقرر کیا جائے ؟ الجواب حامداً ومصلیا َ و مسلماً : پنحگانہ نماز کی امامت کے لئے جو صاحب مسائل سے زیادہ واقف ہیں ان کو مقرر کرنا بہتر ہے البتہ تراویح میں قرآن مجید سنانے کے لئے ایسے حافظ کو ترجیح دی جائے تو مضائقہ نہیں جس کو قرآن شریف خوب یاد ہے اور بقدر ضرورت مسائل سے بھی واقف ہے ۔ (کفایۃ المفتی ج ۳ ؍۸۱)