آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ملکیت تامہ ہے یعنی مالک مال کے رقبہ کا بھی مالک ہو اور اس پر ہر وقت تصرف کرسکتا ہو یعنی اس کی قبضہ میں ہو ۔ یہاں زر ضمانت کی رقم اگر چہ اصلاً ضمانت جمع کرانے والے کی ملکیت ہے لیکن بطور ضمانت جمع کرنے کے بعد اس کے تصرف اور قبضہ سے خارج ہوکر حکومت کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جس میں ملکیت تامہ باقی نہ رہی ، اس لئے مال مرہونہ کی طرح اس میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں۔ لما قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ : ولا فی مرہون بعد قبضۃ ۔ قال الن عابدینرحمہ اللہ ، ای لا علی المرتہن لعدم ملک الرقبۃ ولا علی الراہن لعدم الید واذا استرد ہ الراہن لا یزکی عن السنین الماضیۃ ۔ ( الدر المختار علی صدر رد المحتارج ج۲ ،۲۶۳ کتاب الزکوٰۃ ) (۱) قال العلامۃ ابن نجیم المصری رحمہ اللہ : واطلق الملک فانصرف الی الکامل وہو المملوک رقبۃ ویدا ۔۔۔۔۔۔ ومن موانع الوجوب الرہن اذا کان فی ید المرتہن لعدم ملک الید۔ ( البحر الرائق ج۲ ،۲۰۳ کتاب الزکوٰۃ ) (فتاوی حقانیہ ج۳؍۵۰۷۔۵۰۸) بھنگ وافیون کے عادی کو زکوۃ دی جائے یانہیں ؟ سوال: ایک شخص نہایت مفلس اور غریب ہے ،لیکن بھنگ اور افیون وغیرہ کا از حد مرتکب ہے،اس کو زکوۃ دینا شرعاً جائز ہے یانہیں ؟ کتاب تنبیہ الغافلین للسمرقندی میں یہ حدیث لکھی ہے فرمایا حضرت رسول اللہ ﷺ نے ’’ من أطعم شارب الخمر لقمۃ سلط اللہ علیہ حیۃ وعقرباً فی قبرہ ۔ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً: یہ ظاہر ہے کہ صدقات وخیرات صلحاء کودینا افضل ہے جیساکہ وارد ہواہے ’’ ولیأکل طعامکم الأبرابر،، یعنی چاہیئے کہ تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں ، لیکن فاسق وفاجر شراب نوش ،جب کہ مفلس ہے اس کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجاتی ہے ،اگرچہ بہتر یہ ہے کہ صلحاء فقراء کو دی جائے ، اور کتاب مذکور سے جو حدیث نقل کی ہے اس کا حال بندہ کو معلوم نہیں کہ وہ ثابت ہے یا نہیں ، اگر ثابت ہو تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ شارب الخمر کو اگر محبت کے ساتھ کچھ کھلائے پلائے گا تو ایسی وعید کا مستحق ہے ،بہر حال اداء زکوۃ میں کچھ تأمل نہیں ہے ،بہتر ہونا اور نہ ہونا دوسری بات ہے ، اور مفلس ومحتاج اگرچہ فاسق ہو اس کے دینے میں بھی ثواب ہے، جیساکہ وارد ہواہے کہ ہر ایک ذی روح کے دینے میں اجر ہے ۔ (مصرف الزکوۃ ۔۔الخ ہو فقیر ۔۔۔)البتہ اگر یہ یقین ہو کہ وہ شراب پینے پر یہ رقم صرف کرے گا تو اسے دینا درست نہیں ہے ،{وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } ارشاد ربانی ہے۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند ج۶ص۲۳۴)