آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۴۔ مسلمان فقیر کی تملیک کرنا جو نہ ہاشمی ہو اور نہ اس کا آزاد شدہ غلام ہو ،اس عبارت سے کافرخارج ہوگیا ، اس کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی ، اسی طرح جو مسلمان ہو لیکن فقیر نہ ہو بلکہ غنی ہو ،اسے بھی زکوۃ نہیں دی جاسکتی ، اسی طرح جو مسلمان ہو لیکن سید ہاشمی ہو ، یا اس کا آزاد کردہ غلام ہو وہ بھی بوجہ اپنی عظمت وحرمت کے زکوۃ نہیں لے سکتا ۔ تملیک کے لفظ سے واضح ہونا چاہیئے کہ زکوۃ کے روپیہ وغیرہ کو ضروری ہے کہ کسی فقیر کی تملیک کیا جائے ، لہذا زکوۃ کا روپیہ ہر اس جگہ جہاں تملیک اورقبض نہ ہو خرچ نہیں ہوسکتا،مثلاً مسجد پر براہ راست خرچ نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ مسجد میں اہلیت قبض وتملیک نہیں،ایسے ہی یہ روپیہ کسی میت پر کفن وغیرہ میں خرچ نہیں ہوسکتا،کیونکہ میت اہل تملک وقبض نہیں ہے ۔ ۵ ۔ خرچ کرنا بہ نیت ادائے گی زکوۃ کی قید اس لئے لگائی گئی کہ زکوۃ عبادت ہے ،اور عبادات بغیر نیت کے اد ا نہیں ہوتیں۔ ۶۔ اور تملیک کرنے والے کو اس تملیک میں ذاتی منفعت مقصود نہ ہو ، اس قید سے اس طرف اشارہ کیا گیا کہ زکوۃ دینے والا اپنی زکوۃ اپنے اصول (والد، دادا،والدہ وغیرہم ) اوراپنے فروع (بیٹا ،پوتا، بیٹی ،نواسا، وغیرہم) کو نہیں دے سکتا،اسی طرح زوجین (میاںبیوی) باہم ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے ،اسی طرح کوئی شخص اپنے غلام کو تنخواہ میں زکوۃ نہیں دے سکتا ، کیونکہ اس میں زکوۃ دہندہ کی ذاتی غرض پائی جاتی ہے ۔ (خیر الفتاوی ج؍۳) زکوۃ کو زکوۃ کہنے کی حکمت سوال:زکوۃ کے لغوی معنے کیا ہیں اور اسے زکوۃ کہنے کی حکمت کیا ہے ؟ الجواب حامدا ً ومصلیا ً ومسلماً:زکوۃ کے معنی پاک صاف ہو نے کے ہیں ، فریضہ زکوۃ کو زکوۃ کہہ کر اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ گویا اس کی ادائیگی سے بقیہ مال کو پاکی حاصل ہو تی ہے ، اس میں ایک بہت بڑی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ زکوۃ ادا کرکے آدمی کو خوش اور مسرور ہو نا چاہئے نہ کہ ملول اور رنجیدہ خاطر ،جیسے انسان غسل کرتا ہے اور اس کے جسم کا میل دھل جاتا ہے ، یا کپڑے دھوتا ہے ، اور کپڑے سے میل و کچیل دور ہو جاتے ہے، تو انسان اس سے رنجیدہ نہیں ہو تا ، بلکہ اسے ایک طرح کا نشاط حاصل ہو تا ہے کہ میل کچیل اور گندگی سے نجات مل گئی ، اسی طرح فریضہ زکوۃ ادا کرنے کے بعد آدمی کو خوش ہو نا چاہئے کہ اس نے مال کے میل کچیل کو دور کر دیا ہے ‘ اس بات کا افسوس نہ ہو ناچاہئے کہ مال کا کچھ حصہ