آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تلاوت کلام پاک کے لئے جمع ہونے کی فضیلت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ کوئی قوم اللہ کے گھر وں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر تلاوت کلام پاک اور اس کا دور نہیں کرتی مگر ان پر سکینہ نازل ہو تی ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے ، ملائکہ رحمت ان کو گھیر لیتے ہیں اورحق تعالی شانہ ان کا ذکر ملائکہ کی مجلس میں فرماتے ہیں ۔ دوآیات کی تلاوت کرنا دو عمدہ اونٹنی حاصل کرنے سے بہتر ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہم لوگ صفہ میں بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کو ن شخص یہ پسند کرتا ہے کہ علی الصبح بازار بطحان یا عقیق میں جائے اور اونٹنیاں عمدہ سے عمدہ بلا کسی قسم کے گناہ اور قطع رحمی کے پکڑ لائے ؟ صحابہ رضی اللہ تعالی عہم نے عرض کیا کہ اس کو تو ہم میں ہر شخص پسند کرے گا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد جا کر دو آیتوں کا پڑھنا یا پڑھا نا دو اونٹنیوں سے اور تین آیات کا تین اونٹنیوں اسی طرح چار کا چار سے اور ان کے بقدر اونٹوں سے افضل ہے ۔ قرآن کریم باآواز بلند پڑھنے اور آہستہ پڑھنے کی فضیلت کا بیان ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اونچی آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا علانیہ صدقہ کرنے والی کی طرح ہے اور آہستہ آوازسے تلاوت قرآن کریم کرنے والا خفیہ طور پر صدقہ کرنے والے کی طرح ہے۔ (ترمذی وابن حبان ) تشریح: علامہ طیبی رحمۃ اللہ عنہ حدیث بالا کی شرح میں لکھتے ہیں کہ بعض روایات سے قرآن بلند آواز سے پڑھنے کی افضلیت معلوم ہوتی ہے اور بعض سے آہستہ تلاوت کرنا افضل معلوم ہوتاہے ۔دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ جس شخص کو ریا کاری کا خطرہ ہو اس کے لئے سر ی تلاوت افضل ہے بشرطیکہ کسی نمازی یا سونے والے کو یا اور کسی کو اذیت نہ پہنچے ۔ اور جہری تلاوت اس لئے افضل ہے کہ اس کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے اس طرح کہ وہ قرآن دینی شعار ہے اور جہری تلاوت میں اس شعار کا اعلان واظہار ہے علاوہ ازیں جہر سے قاری کا دل بیدار اور اس کی ہمت مجتمع ہوگی اور نیند دور ہوگی نیز اوروں کو بھی تلاوت کا ذوق جذبہ اور نشاط حاصل ہوگا ۔ اگر کسی شخص کی یہ نیتیں ہوں تو اس کے لئے جہر افضل ہے۔