آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خود سید نہ ہو ،لیکن اس کی بیوی سیدہ ہو، اسی طرح بیوی سیدہ نہ ہو ، اور شوہر سید ہو ، اور مستحق ہو تو بیوی کو زکوۃ دی جاسکتی ہے ،(۱) بلکہ فی زمانہ ایسا کرنا بہتر ہے، تاکہ ضرورت مند سادات کی اعانت ہو سکے۔ سادات کے لئے زکوۃ کی حرمت اس وقت ہے جب ان کو براہ راست زکوۃ دی جائے ، اگر بالواسطہ ان تک زکوۃ کی رقم پہونچے تو اس کی ممانعت نہیں : ’’ رسول اللہ ا کی ایک خادمہ حضرت بریرہ ص تھیں، ان کے پاس گوشت پک رہا تھا ،پھر انہوں نے آپ ا کو کھانا پیش کیا، تو اس میں گوشت موجود نہیں تھا، آپ ا نے وجہ دریافت کی تو عرض گزار ہوئیں کہ گوشت صدقہ کا ہے ، آپ انے فرمایا کہ تمہارے لئے صدقہ ہے، اور میرے لئے ہدیہ ‘‘ (۲) معلوم ہوا کہ اگر زکوۃ یا کوئی صدقۂ واجبہ غیر سید کے واسطہ سے بہ طور ہدیہ ، یا نفقہ سید تک پہونچ جائے ، تو اس کی ممانعت نہیں ۔ (۱)’’ مصرف الزکوۃ : ھو فقیر و ھو من لہ أدنیٰ شییٔ أی دون نصاب أو قدر نصاب غیر تام مستغرق في الحاجۃ و مسکین من لا شیي لہ علی المذھب ‘‘ (الدر المختار علی ھامش ردالمحتار: ۳/ ۲۸۳ - ۲۸۴) محشی ۔ (۲)صحیح البخاري ، حدیث نمبر : ۸۴۹۳ ۔محشی ۔ (کتاب الفتاوی ج ۳؍۲۹۵) سید کی بیوی کو زکوۃ سوال: میری بہن حنفی شیخ ہے ، جن کا عقد ایک سید گھرانے میں ہوا تھا ، کسی سبب شوہر نے طلاق دے دی ہے ، تو کیا میں ان کو یا ان کی اولاد کو زکوۃ کی رقم دے سکتا ہوں ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً: چونکہ ان کی اولاد بھی سادات ہیں، اس لئے ان کو زکوۃ دینی جائز نہیں ، (۱) البتہ آپ اپنی بہن کو زکوۃ دے سکتے ہیں(۲)۔ (۱)’ لا ( یصرف ) إلی بنی ھاشم ( الدر المختار ) تصرف الزکوۃ إلی أولاد کل إذا کانوا مسلمین فقراء إلا أولاد عباس و حارث و أولاد أبي طالب من علي و جعفر و عقیل‘‘ (رد المحتار : ۳/۲۹۹) محشی ۔ (۲)’’ الأفضل في الزکوۃ ۔۔۔ الصرف أولا إلی الأخوۃ و الأخوات ثم إلی أولاد ھم ثم إلی الاعمام و العمات‘‘( الفتاوی الھندیۃ :۱/۱۹۰) محشی (کتاب الفتاوی ج ؍۲۹۶) سادات کے لئے زکوۃ کیوں حرام ہے ؟ سوال: جب تمام مسلمان برابر ہیں، تو سادات کے لئے زکوۃکیوں حرام قرار دی گئی ہے ؟ الجواب حامداً و مصلیاً و مسلماً: آپ ا کا مزاج تھا کہ جہاں قربانی کی نوبت ہوتی وہاں اپنے قرابت داروں کو آگے رکھتے ، غزوۂ بدر کے موقع سے جب مکہ کے سورماؤں نے دعوتِ مبارزت دی تو آپ ا نے اپنے قریب ترین عزیزوں