آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور زکوۃ ادا ہوگئی یا نہیں ؟ الجواب حامداً ومصلّیاً ومسلّماً: اس طریق سے زکوۃاداکردینا درست ہے اور زکوۃ عمر کی ادا ہوگئی لصحۃ الوکالۃ ۔ (وشرط صحۃ ادائہا نیۃ مقارنۃ لہ أی للأداء و لو کانت المقارنۃ حکماً (الدر المختار علی ہامش رد المحتار کتاب الزکوۃ ج۲/۱۴) وکیل ِزکوۃ اگر زکوۃ کے نقد روپےکو اپنے روپے میں ملالے اور زکوۃ بتدریج دیدے تو یہ کیسا ہے ؟ سوال : نقود میں چونکہ تعیین نہیں ہے پس اگر زکو ۃ کا پیسہ اپنے مال میں ملادیا جائے اور پھر وقتاً فوقتاً بہ نیت ادائے زکوۃ اور غیر زکوۃ خرچ کیا جائے تو صاحب زکوۃ کی زکوۃ کس وقت ادا ہوگی ؟ جس وقت کہ اس نے وکیل کے سپرد کیا ہے یا جب کہ مصرف کے پاس پہنچ جائے ؟ اور جب کہ وکیل نے اپنے پیسے میں ملالیا ہے او ربہ نیت خیرات مصرف زکوۃ او رغیر مصر ف مثلاً سادات یا غنی مجہول پر خرچ کرتا رہا حتی کہ اس زکوۃ کے پیسے سے بدرجہا زیادہ خرچ ہوا تو زکوۃ ادا ہوئی یا نہیں ؟ الجواب حامداًومصلّیاًومسلّماً: نقدمیں عدم تعیین مطلقاًنہیں ہے بلکہ امانات وصدقات وغیرہ میں نقود متعین ہیں ، جیسا کہ اشباہ ونظائر میں ہے ’’ لا یتعین فی المعاوضات ۔۔الخ ویتعین فی الامانات والہبۃ والصدقۃ ،، اور ایسا ہی شامی میں ہے ۔ پس زکوۃ کی رقم بدون اجازت مزکی کے اپنے مال میں ملانا جائز نہیں ہے ، اور زکوۃ مزکی کی اس وقت ادا ہوگی کہ مصرف کے پاس پہنچ جائے ، اور اگر وکیل نے اپنے روپے میں مؤکل کی رقم ِزکوۃ کو ملالیا ، پس اگر یہ ملانا مؤکل کی اجازت سے ہے تو جس وقت رقم زکوۃ علیحدہ کرکے بہ نیت زکوۃ مزکی کی طرف سے دے گا اس وقت زکوۃ اس کی ادا ہوگی ، اور اگر بلا اجازت مؤکل کے وکیل نے ایسا کیا تواس کی زکوۃ ادا نہ ہوگی ، اور جو کچھ وکیل فقراء وغیرہ کو دے گا وہ وکیل کی طرف سے ہبہ یا صدقہ ہوگا ۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند ج۶؍۶۳،۶۴) وکیل نے دوسرے مستحق کو زکوۃ دیدی تو کیا حکم ہے ؟