آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : واللہ لاقاتلن من فرق بین الصلوۃ والزکوۃ ،، اللہ کی قسم نماز اور زکوۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُن کے اس نقطئہ نظر کو قبول کرلیا اور اس پر سب کا اجماع ہوگیا ۔ زکوۃ کی تعریف سوال: (۱) زکوۃ کی تعریف کیا ہے ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً : (۱) مال ِ مخصوص (نصاب کا چالیسواں حصہ،یاجو شرعاً اس کے قائم مقام ہو جیسے جانوروں میں زکوۃ کا متعینہ حصہ)کا شخص ِمخصوص (مصرف) کو مالک بنادینا اوراس میں اپنی کوئی منفعت نہ ہو ، محض اللہ تعالی کے لئے ہو : ہی تملیک مال مخصوص وہو ربع عشر النصاب أو ما یقوم مقامہ من صدقات السوائم لشخص مخصوص۔ اھـ در مختار (حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح ص ۷۱۳ کتاب الزکوۃ۔ (فتاوی محمودیہ ج؍۹) جواب از خیر الفتاوی : زکوۃ کے لغت میں دو معنی مشہور ہیں ، طہارت ،، اور ’’ نماء ،، یعنی پاکیزگی اور افزائش (زیادتی) او راصطلاح شریعت میں زکوۃ کا معنی یہ ہے کہ ایک مسلمان عاقل ،بالغ اپنے اس مال میں سے جوشرعی نصاب کو پہنچ چکا ہو ایک معینہ حصہ جو شریعت میں ۴۰؍۱ مقرر ہے ،کسی ایسے مسلمان فقیر محتاج کی تملیک کرے جو نہ تو سید ہاشمی ہو اور نہ اس کا آزاد شدہ غلام ہو ، اور اس کایہ خرچ کرنا بہ نیت ادائے گی زکوۃ ہو او تملیک کرنے والے کو اس تملیک میں ذاتی منفعت بالکل مقصو د نہ ہو ۔ درمختار ج؍۲ میں ص ۳ پر ہے ’’ ہی تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ہاشمی ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ للہ تعالی ۔ لغوی اور شرعی معنی میں مناسبت : اس طرح سے اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنے سے مال پاک ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتا بھی ہے اس لئے اس فعل کو زکوۃ کہا جاتاہے ۔ توضیحات : ۱۔ عاقل، بالغ ، اور مسلم کی قید اس لئے لگائی ہے کہ دیوانے ،نابالغ اور کافر پر زکوۃ فرض نہیں ، وشرط افتراضہا عقل وبلوغ واسلام وحریۃ ۔ (در مختار مع الشامیۃ ج۲؍ص ۴)۔ ۲۔ شرعی نصاب کی قید سے وہ مال خارج ہوگیا جو نصاب کو نہ پہنچا ہو اس میں زکوۃ واجب نہیں ۔ ۳۔ حصہ معینہ کی قید سے صدقات نافلہ خارج ہوگئے کیونکہ ان میں تعیین نہیں ہوتی ۔