آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا زکوۃ کی رقم غریب مسلم طلباء کے پڑھنے کے لئے مالی مدد کے طور پرخرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ آپ کا جواب صاف صاف الفاظ میں ہم لوگوں کو درکارہے، تاکہ اسی بنیاد پر دوسروں سے بھی رابطہ قائم کیا جاسکے فقط والسلام الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً : زکوۃ کی رقم محتاج اور غریب لوگوں کو دی جاسکتی ہے ، سرسید اسکالرشپ کے تحت غریب ومحتاج طلبہ کو مد زکوۃ سے وظیفہ دیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ وہ واقعی محتاج ہوں ، عام طور پراس میں دھوکہ ہوتا ہے ، اس لئے پوری تحقیق کرلی جائے ، ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اپنی ذاتی حیثیت میں غنی ہے لیکن علی گڑھ یونیورسٹی یا دیگر بڑے شہروں یا لندن اور امریکہ میں وہاں کے مصارف برداشت نہیں کرسکتا ہو اور اس لئے وہ وظیفہ کا خواہاں ہو ،لیکن وہ شریعت کی اصطلاح میں محتاج نہیں ، اس لئے اسے زکوۃ نہیں دی جاسکتی ،فقیر ومحتاج سے مراد ایسے لوگ جن کے پاس بہ قدرنصاب مال نامی نہ ہو یا بہ قدر نصاب مال ہو لیکن اس کی ضروریات اصلیہ میں مشغول ہو ۔ اگر بہ قدر نصاب مال نامی (ایسا مال جس میں اضافہ کے امکانات ہوں جیسے سونا ، چاندی اور مال ِ تجارت )دین سے فارغ ہو تو اس پرزکوۃ واجب ہوتی ہے اور اگر ایسا مال نہ ہو تو زکوۃ واجب نہیں ہوگی ، اور اگر مال تو اس کے پاس ہے لیکن اس کی ضروریات کوپورا کرنے کے لائق ہے زائد نہیں تو ایسے شخص کے لئے زکوۃ قبول کرنا حلال ہوگا۔ والحاصل أن النصاب قسمان موجب الزکوۃ وہو النامی الخالی عن الدین وغیر موجب لہا وہو غیرہ فإن کان مستغرقا بالحاجۃ لمالکہ أباح أخذہا وإلا حرمہ ۔۔الخ (ردالمحتار۲؍۵۸۔۵۹ طبع بیروت) واللہ تعالی اعلم۔ (فتاوی قاضی مجاہد رحمۃاللہ علیہ) مدرسوں میں زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ مسئلہ: مدرسوں میں اگر زکوۃ دی جائے اور اس میں مستحقین طلباء کو وظیفہ دے دیا جائے یا ان کو کھانا دے کر مالک بنا دیا جائے تو زکوۃ ادا ہوجائے گی اباحت کے طور پر کھانا کھلا دیا جائے تو زکوۃ ادا نہ ہوگی ۔اسی طرح مال زکوۃ سے مدارس کے کتب خانوں میں مالِ زکوۃ سے کتابیں جمع کرا دینا طلبہ کے لئے لحاف بسترے اور چارپائیاں جمع کرادینا اور ان کو عاریتاً دے دینا اور جاتے وقت واپس لے لینا اس سے زکوۃ ادا نہ ہوگی ان کاموں کے لئے زکوۃ اور صدقات واجبہ ادا نہ ہونگے ان کاموں کے لئے علاوہ اصحاب اموال کو چندہ دینا چاہئے ۔ (تحفۃ المسلمین ص ۲۵۰)