آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوگیا۔ اوراسی طرح اس کے بعد سجدہ میں چلے جانے سے بھی اس کا ارتفاع نہیں ہوسکتا کہ اس سے پہلے التباس ہوچکے گا پھر سجدہ میں جانے سے تشویش بڑھے گی کہ رکوع کیوں نہیں کیا ورنہ ایسا ارتفاع تو سجدئہ سہو کے بعد تشہد میںبیٹھنے سے پھر بعد میں مکرر سلام پھیرنے سے بھی مرتفع ہوسکتا تھا مگر فقہاء نے اس کا اعتبار نہیں کیا اس لئے کہ عوام غلبہ جہل سے ان قرائن سے کیا استدلال کرسکتے ہیں۔ اوراپنی نماز کو تباہ کرتے ہیں۔ واللہ اعلم، باقی دوسری جانب میںبھی مجھ کو تنگی نہیں۔ (امداد الفتاوی ج ۱؍۳۰۲) ایک سلام کے ساتھ تین رکعت پڑھنے کا ثبوت سوال : ایک سلام کے ساتھ تین رکعت وتر پڑھنے کو غیر مقلدین غلط کہتے ہیں اور لوگوں کو پریشان کرتے ہیں برائے مہربانی ایک سلام کے ساتھ تین رکعت پڑھنے کی دلیل بیان فرمائیں الجواب حامداًومصلیاً ومسلماً :وتروں کی تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے : ان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لایسلم فی رکعتی الوتر (رواہ النسائی فی سننہ وقال الامام النووی فی شرح المہذب ج۳؍۴۷۸ اسنادہ جید ) ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعتوں میں سلام نہیں پھیرتے تھے ۔ (روایت کیا اس امام نسائی نے کھرے اسناد کے ساتھ اور اس کو روایت کیا ہے حاکم نے مستدرک میں ج۱؍۳۰۴کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی دو رکعتوں میں سلام نہیں پھیرتے تھے ۔امام حاکم نے اس حدیث کو بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے بھی تلخیص میں اس با ت کی توثیق کی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے بخاری اور مسلم کی شرط پر ہے ) اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی پڑھتے تھے اور دوسری رکعت میں قل یا یہا الکافرون پڑھتے تھے اور تیسری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے اور سلام اخیر ان کے اخیر ہی میں پھیرتے تھے ۔ اور سلام پڑھنے کے بعد سبحا ن الملک القدوس ‘‘ تین بار پڑھتے تھے ۔ (روایت کیا امام نسائی نے سنن صغری میں ج۱؍۲۴۸ اور ابن السنی نے عمل الیوم و اللیلۃ میں حدیث نمبر ۷۰۶ اس حدیث کو تقریبا بیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم