آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پس اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص قرآن مجید کا ماہر نہ ہو اور نہ اچھی طرح تلاوت کرتا ہو تو وہ اس بلند مقام تک نہیں پہنچ سکتا جو ماہر قرآن کا ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔ {دوسری فصل } آدابِ تلاوت ( ۱) ا خلاصِ نیت (یہ قرآن کریم کا بڑا اہم حق واہم ادب ہے ) قرآن کریم پڑھنے وپڑھانے اور تلاوت کرتے وقت اپنی نیت کو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کرلے کیونکہ اخلاص کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں، اللہ تعالی نے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا : { قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للّہ رب العالمین لا شریک لہ وبذلک أمرت وأنا أول المسلمین }( سورۃ الانعام ۱۶۲ ) ترجمہ : آپ فرمادیجئے کہ بیشک میری نماز اور میری جملہ عبادتیں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے جسکا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : { وما أمروا إلا لیعبدوا اللّہ مخلصین لہ الدین حنفاء ویقیموا الصلوٰۃ ویؤتوا الزکوٰۃ وذلک دین القیمۃ } ( سورۃ البینۃ ۵) ترجمہ : ( حالانہ انکو یہی حکم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کریں کہ عبادت کو اسی کے لئے خاص رکھیں یکسو ہوکر ، اور نماز کی پابندی رکھا کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی صحیح اور درست دین ہے ) ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( إنما الأعمال بالنیات وإنما لکل امرئ ما نویٰ ))۔الحدیث ( رواہ البخاری ) یعنی اعمال کے قبول ہونے کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اور ہر شخص کے لئے وہ ہی ہے جو اس نے نیت کی ۔ اس حدیث کو امام نووی اور دیگر علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم نے ان احادیث میں شمار کیا ہے جن پر اسلام کا مدار ہے ، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب التبیان فی آداب حملۃ القرآن میں اخلاص کا معنی بیان فرماتے ہوئے ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ اخلاص یہ ہے کہ طاعت میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات مقصود ہو یعنی اپنے اس عملِ صالح سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے سوا اور کوئی قصد نہ ہو آگے پھر لکھتے ہیں کہ اخلاص کا معنی یہ بھی ہے کہ اپنے عمل کو تمام مخلوقات کے خیال سے پاک کردے ۔( یعنی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کو خالص کرلے )