آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ملاحظہ ہوایضاح النوادرمیں ہے: کرایہ دارپیشگی یکمشت جورقم مالکِ مکان اورمالکِ دوکان کواداکرتاہے مالکِ مکان اس کا مالک ہوجاتاہے اس کی زکوٰۃ بھی مالکِ مکان ہی پرلازم ہواکرتی ہے ،کرایہ دارپراس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہے، اس لئے کہ اس رقم پرکرایہ دارکی ملکیتِ تامہ حاصل نہیںہے۔إذا عجل الاجرۃ لایملک الاسترداد۔شامی:۶/۱۰۔(ایضاح النوادر:حصۂ دوم ص۱۰)۔ جدیدفقہی مسائل میں ہے: پیشگی رقم مالکِ مکان کی ملکیت میں آجاتی ہے اس لئے مالکِ مکان ہی کواس کی زکوٰۃ اداکرنی ہوگی ۔چنانچہ ابن ہمام ؒ لکھتے ہیں: و أمازکاۃ الأجرۃ المعجلۃ عن سنین في الإجارۃ الطویلۃ التي یفعلہا بعض الناس عقوداً ویشترطون الخیار ثلا ثۃ أیام في رأس کل شہر فتجب علی الآجر لأنہ ملکہا بالقبض۔ (فتح القدیر:۲/۱۲۱)۔ پس پیشگی دیئے گئے کرایہ کی زکوٰۃ مالکِ مکان پرواجب ہوگی۔(جدیدفقہی مسائل:۱/۲۱۸)۔واﷲگ اعلم۔ (فتاوی دارالعلوم زکریاج۳ص۱۳۰) ضرورت کے لیے خریدی گئی زمین پر تجارت کی نیت کرنا سوال : ایک شخص نے کچھ زمین گھر کی تعمیر کیلئے خریدی، اور نصف تعمیر کے بعد تجارت کی نیت کرلی ، اب تعمیر پر زکوٰۃ کب سے واقع ہوگی؟ ابتدائً یا بوقت نیت ؟ الجواب حامدا ومصلیاومسلما : جو زمین گھر کی تعمیر کے لیے خریدی جائے اور دوران تعمیر اگر تجارت کی نیت کرلی تو قبل النیت خرچ کی ہوئی رقم پر زکوٰۃ نہیں ، کیونکہ تجارت میں نیت بوقت عقد معتبر ہوتی ہے اور بعد نیت جو رقم خرچ کی گئی ہے باقی اموال سے ملاکر اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔ قال علاؤالدین الحصکفی رحمہ اللہ : لا یبقی للتجارۃ ما ای عبد مثلاً اشتراہ لہا بعد ذلک خدمتہ ثم مانواہ للخدمۃ لا یصیر للتجارۃ وان نواہ لہا مالم یبعہ بجنس ما فیہ الزکوٰۃ والفرق ان التجارۃ عمل فلا تتم بمجرد النیۃ۔( الدر المختار علی صدر رد المحتار ج۲ ؎۲۷۲ کتاب الزکوٰۃ ) (۱)قال الامام فخرالدین القاضی خان رحمہ اللہ : اشتری خاد ماللخدمۃ وہو ینوی انہ لو اصاب ربحاً یبیعہ فحال علیہ الحول لا زکوٰۃ فیہ ۔ ( الفتاوی قاضی خان علی ہامش الہندیۃ ج۱ ؎۱۱۷ کتاب الزکوٰۃ ) ومثلہ فی البحر الرائق ج۲ ؎۲۰۹ کتاب