آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گیارہویں فصل :مہر سے متعلق احکام زکوۃ مہر کی رقم پر زکوۃ کا حکم سوال: دینِ مہر نکاح کی زکوۃ مرد عورت کے ذمہ واجب ہے یا نہیں ؟ اور مہر ادا نہیں ہوا ، لہذا کسی صورت سے ہو مہر کے اوپر زکوۃ کا ہونا لازم ہے یا نہیں ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً : مرد دینِ مہر جب عورت کو دیدے اور وہ مقدار نصاب ہو ، اور اس پر سال بھی گزرجائے ، تب عورت کے ذمہ اس کی زکوۃ واجب ہوگی ، اگر وہ مقدار نصاب نہیں بلکہ اس سے کم ہے اور عورت کے پاس اتنی مقدار موجود ہے جس کو مہر کے ساتھ ملاکر پورا نصاب ہوسکتا ہے تو اس کو ملاکر زکوۃ ادا کی جائے گی، اگر نصاب پورا نہیں ہوسکتا تو اس پر زکوۃ نہیں ، اسی طرح وصول ہونے سے پہلے زکوۃ واجب نہیں ۔ ( وعند قبض مائتین مع حولان الحول بعد أی بعد القبض من دین ضعیف ، وہو بدل غیر مال کمہر ، ودیۃ ، وبدل کتابۃ ، وخلع ، إلا إذا کان عندہ ما یضم إلی الدین الضعیف ۔ الدر المخ تار :۲؍۳۰۶، مطلب فی وجوب الزکوۃ فی دینالمرصد،)۔ (فتاوی محمودیۃ ج ۱۴ص۲۷) بیٹی کے حق مہر کی رقم والد نے لی ہو تو زکوٰۃ کس پر واجب ہے؟ سوال : ایک شخص نی اپنی بیٹی کا حق مہر تقریباً دس ہزار روپے لے کر اپنے پاس رکھا، تو سال گذر جانے کے بعد زکوٰۃ کس پر لازم ہوگی ؟ باپ یا بیٹی ؟ الجواب حامداً و مصلیاً و مسلماً: اگر بیٹی نے شرم وحیاء کی وجہ سے یہ رقم اپنے والد کو دے دی ہو تو اس ہبہ کا اعتبار نہیں کیونکہ ہبہ میں رضاء واہب ضروری ہے ، بس اس صورت میں زکوٰۃ لڑکی پر واجب ہوگی، اور باپ کے لیے اس رقم کا استعمال جائز نہیں، التبہ اگر بیٹی نے یہ رقم خوشی سے باپ کو دی ہو تو پھر باپ کے لیے اس کا استعمال جائز ہے اور اس رقم کی زکوٰۃ والد پر واجب ہوگی ۔ لما فی الہندیۃ : ومن کان لہ نصاب فاستفاد فی اثناء الحول مالاً من جنسہ ضمہ الی مالہ وزکاہ سواء کان المستفاد من نمائہ اولا ۔ وبای وجہ استفاد ضمہ سواء کان بمیراث او ہبۃ او غیر ذلک ولو کان من غیر جنسہ۔ ( الفتاوی الہندیۃ ج۱ ؎۱۷۵ کتاب الزکاۃ ، الباب الاول فی تفسیرہا ) (۱) قال ابن نجیم رحمہ اللہ : واطلق فی المستفاد فشمل المستفاد بمیراث او ہبۃ او شراء او وصیۃ ۔ ( البحر الرائق ج۲ ؎۲۲۲ فصل فی الغنم ) ومثلہ فی الہدایۃ علی صدر فتح القدیر ج۲ ؎ ۱۱۲ کتاب الزکوٰۃ ۔ (فتاوی حقانیہ ج۳؍۵۰۰)