آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ج؍۱۴ص۱۴۴) جو جانورزراعت یا دودھ کے لئے ہیں کیا ان پر زکوۃ ہے ؟ سوال : زراعت کے لئے کوئی شخص جانور پالے او ران کے ساتھ گائے بھینس بھی متعدد رکھے تاکہ ان کے دودھ سے اہل وعیال کو غذا ہو اور بچے ان کی زراعت میں کام آئیں ، تو کیا ایسے جانوروں کی ہر سال زکوۃ نکالنی چاہیئے جب کہ جانور وسیع جنگل میں رکھے گئے ہیں او رسرکار میں اس اراضی کا مقررہ محصول ادا کیا جاتا ہے ۔ الجواب : حامداً ومصلّیاً ومسلّماً : زراعت کے لئے جو جانور پرورش کیئے گئے ہوں اگرچہ سائمہ ہوں ان میں زکوۃ واجب نہیں ہے ، اور دودھ پینے او رنسل حاصل کرنے وغیرہ کے لئے جو جانور پالے جائیں او ر وہ سائمہ ہوں ان میں زکوۃ واجب ہے ، بشرطیکہ نصاب کو پہنچ جائیں ۔ ( الدر المختار علی ہامش رد المحتار باب السائمۃ ج ؍۲۰ )۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند ج ۶ ؍۱۰۵) بکریوں اور مرغیوں کی زکوۃ سوال:اگر کوئی شخص بکریوں یا مرغیوں کی تجارت کرتا ہو ، تو کیا اسے مرغیوں اور بکریوں کی زکوۃ دینی ضروری ہے ؟ الجواب : حامداً ومصلّیاً ومسلّماً : تجارت جس چیز کی بھی کی جائے اس میں زکوۃ واجب ہے ، اس لئے تجارت کی بکریوں اور مرغیوں میں زکوۃ واجب ہوگی، البتہ یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ اگر کسی نے بکریوں کا فارم قائم کیا ہو اور اس کی افزائش کرتاہو ، تب تو زکوۃ اس میں اس شرح سے واجب ہوگی جو جانوروں کے سلسلے میں مقرر کی گئی ہے ، اور اگر خود بکریوں کی افزائش نہ کرتا ہو، بلکہ خرید وفرخت کرتاہو تو اس میں زکوۃ مالِ تجارت کی شرح ، یعنی ڈھائی فیصد کے حساب سے واجب ہوگی، خواہ یہ ڈھائی فیصد مرغیاں اور بکریاں ہی مستحقین کو دے دے ، یا ان کی قیمت لگاکر قیمت میں سے ڈھائی فیصد ادا کردے ۔ (کتاب الفتاوی ج ۳؍۳۴۶۔۳۴۷) ایسے متعدد اقسام کے جانور جن کو خرید کر چارہ دیا جاتا ہے ، کیا اُن میں زکوۃ ہے ؟ سوال : ایک شخص کے پاس چار بھینس او رچار بیل ، تین گائے ، ایک گھوڑا ، ایک اونٹ تخمیناً ایک ہزار روپیئے کی مالیت کے ہیں ، ان کو گھاس مول خرید کر