آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے بعد بقد ر نصاب مال بچ جائے ، اس کو زکوۃ دینا جائز ہے ۱ھ بہت سے لوگوں پر قرضے ہو تے ہیں لیکن مال بھی پاس ہو تا ہے ، اس مال سے قرضے ادا کردیں تو قرضے ادا ہو کر بھی بقدر نصاب بلکہ اس سے بھی زیادہ مال بچ سکتا ہے ۔ ایسے لوگوں کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے ۔ لوگو ں کو یہ بتاکر کہ ہم مقروض ہیں زکوۃ لیتے رہتے ہیں ایسے لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا حلال نہیں ہے اور نہ ان کو دینا جائز ہے ۔ ۷۔فی سبیل اللہ: ساتویں نمبر پر و فی سبیل اللہ فرمایا ۔ فی سبیل اللہ سے کیا مراد ہے ؟ اس کے بارے میں امام ابو یوسف نے فرمایا کہ اس سے وہ حضرات مراد ہیں جو جہاد کر نے کے لئے نکلے تھے ۔ اپنے ساتھیوں سے بجھڑگئے اور ان کے پاس خرچہ نہیں ہے ۔ کھا نا پینا بھی ہے اور وطن بھی پہنچتا ہے ۔ ان کو زکوۃ کا مال دے دیا جائے ۔ امام محمد نے فرمایا ہے کہ فی سبیل اللہ سے حجاج مراد ہیں جو قافلے سے بچھڑ گئے اور ان کے پاس مال نہیں ہے اور انہیں خرچ کر نے کے لئے اور گھر پہنچنے کے لئے پیسہ کی ضرورت ہے ۔ اور بعض فقہا ء نے فرمایا ہے کہ اس سے طالب علم مراد ہیں جو دینی علوم کے حاصل کرنے میں لگے ہو ئے ہیں اور صاحب بدائع میں فرما یا ہے کہ اس سے وہ سب لوگ مراد ہیں جو کسی بھی صورت میں اللہ کی اطاعت میں اور نیک کاموں میں لگے ہو ئے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ محتاج ہو ں ۔ ( البحرالرائق ج۲ص۲۶۰) تنبیہ: آج کل ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں جو تفسیر قرآن اور احکام و مسائل کے بارے میں سلف کا دامن چھوڑ کر جو چاہتے ہیں اپنے پاس سے کہہ دیتے ہیں ۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ فی سبیل اللہ عموم میں مسجدیں مدرسے شفاخانے، مسافر خانے، کنوئیں ، سڑکیں اور پل بنانا اور رفاہی اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں دینا دفتروں کے مصارف میں خرچ کرنا، میت کو قبرستان پہنچانے کے لئے ایمبولینس کا انتظام کرنا اور غریب میت کے کفن دفن میں خرچ کرنا یہ سب جائز ہے یہ ان لوگوں کی جہالت کی باتیں ہیں۔مفسرین اور محدثین اور فقہاء نے جو کچھ قرآن مجید کو سامنے رکھ کر مسائل اخذ کئے ہیں ان کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے قول کی کوئی حیثیت نہیں جو عربی زبان کا ایک صیغہ بھی نہیں بناسکتے اور جو قرآن مجید کی ایک سورت صحیح نہیں پڑھ سکتے۔یہ لوگ اپنی جہالت سے کہتے ہیں زکوۃ کا مال جہاں چاہو خرچ کردو تملیک فقیر کی کوئی ضرورت نہیں ۔یہ بات چاروں مذہبوں کے خلاف ہے اگر ہر کام میں زکوۃ کا مال خرچ کرنے کی اجازت ہوتی تو قرآن مجید میں آٹھ قسمیں بتانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو ان سے فرمایا تھا ان اللہ قد فرض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیائھم وتردعلی فقرائہم۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان فقیروں کو دے دی جائے ۔