آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اجماع ہوگیا، اس کے بعد کسی خوشامد اور تالیف قلوب کی ضرورت نہیں رہی ہے ، جس کا جی چاہے اسلام لائے ، اور جس کا جی چاہے کفر کرے ، کفر کرنے والے کے لئے جہنم ہے { فَمَنْ شَا َٔفَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَآ َٔ فَلْیَکْفُرْ انا اعتدنا للظالمین نارا} (سورۃ الکہف ۲۹) نسخ کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اکرم ﷺ نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا تھا تو ان سے فرمایا تھا (تؤخذ ہا من اغنیائہم وتردعلی فقرائہم ) کہ اُن کے (یعنی مسلمانوں کے) مالداروں سے زکوۃ وصول کرنا اور ان کے (یعنی مسلمانوں کے) فقیروں کو عطا کرنا ، لہذا رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے تالیف قلوب کی مشروعیت ختم ہوکی ، اب صرف مسلمان فقراء کو زکوۃ کا مال دیناجائز ہے ۔ وسکت عن المؤلفۃ قلوبہم لسقوطہم إما بزوال العلۃ أو نسخ بقولہ ﷺ لمعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فی آخر الأمر : خذہا من أغنیائہم وردہا فی فقرائہم ۔ (الدر المختار علی ہامش رد المحتار :۲؍۶۰۔۶۱) (قولہ سقط منہا المؤلفۃ قلوبہم) کانوا ثلاثۃ أقسام : قسم کفار کان علیہ الصلاۃ والسلام یعطیہم لیتألفہم علی الإسلام ، وقسم کان یعطیہم لیدفع شرہم ، وقسم أسلموا وفیہم ضعف فی الإسلام فکان یتألف لیثبتوا ۔۔۔وأخرج ابن أبی شیبۃ عن الشعبی إنما کانت المؤلفۃ علی عہد النی ﷺ فلما ولی أبو بکر انقطعت (قولہ علی ذلک انعقد الإجماع ) أی إجماع الصحابۃ فی خلافۃ أبی بکر ، فإن عمر ردہم وقال ما ذکرنا لعیینۃ وقیل جاء عیینۃ والأقرع یطلبان أرضاً إلی أبی بکر فکتب لہ الخط فمزقہ عمر وقال : ہذا شیء کان رسول اللہ ﷺ یعطیکموہ لیتألفکم علی الإسلام والآن فقد أعزاللہ الإسلام وأغنی عنکم ، فإن ثبتم علی الإسلام وإلا فبیننا وبینکم السیف ، فرجعوا إلی أبی بکر فقالوا : الخلیفۃ أنت أم عمر ؟ فقال : ہو إن شاء ، ووافقہ فلم ینکر أحد من الصحابۃ رضی اللہ عنہم ۔ (شرح فتح القدیرباب من یجوز دفع الصدقۃ إلیہ ومن لایحوز) ۵۔ وفی الرقاب : پانچویں نمبر پر و فی الرقاب فرمایا رقاب ، رقبہ کی جمع ہے ۔ یہ لفظ مملوک کے لئے بولا جا تاہے ۔ جس کسی شخص کی ملکیت میں کئی غلام ہو اور وہ اس غلام کو مکاتب بنادے یعنی یوں کہہ دے کہ تو اتنا مال دیدے تو آزادہے ، اس سے مکاتب کہتے ہیں جب کسی آقانے اپنے غلام کو مکاتب بنادیا اور اب اسے اپنی آزادی کے لئے مال کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے آقا مال دے کر آزاد ہو جائے اس مکاتب کو زکوۃ کے مال سے دینا جائز ہے ۔ ۶۔والغارمین: چھٹے نمبر پر الغارمین فرمایا ۔ یہ غارم کی جمع ہے اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کے ذمہ قرض ہو اور ادائیگی کا انتظام نہ ہو ۔ اگرچہ خود لوگوں پر ان کے قرضے ہوں ، لیکن ان کو وصول کر نے سے عاجز ہو ں ، ایسے لوگوں کو زکوۃ کا مال دیا جاسکتا ہے ۔ فتاوی عالمگیری ص۸۸ ج۱ میں لکھا ہے کہ قرض دار کو زکوۃ دینا تاکہ اس کا قرضہ ادا ہو جائے عام فقراء کو دینے سےاولی ہے ، البحر الرائق میں لکھا ہے کہ جس آدمی پر قرضہ ہو اسکی ملکیت میں اتنا مال نہ ہو جس سے قرضہ ادا کرنے