آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وعلمہ اتم وا حکم۔ سوال : تنخواہ دار امام فطرہ لے، ا س کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ الجواب حامداً ومصلّیاً ومسلّماً : تنخواہ دار امام اگر غنی ہے تو اسے فطرہ لیناحرام ہے، اس لئے اس کے پیچھے اقتدا مکروہ ہے، خاص کر جبکہ جبرا اپنا حق سمجھ کر لیتا ہو۔ اور اگر مسکین و محتاج ہے اور لوگ بطیب خاطر اسے دیتے ہیں تو اسے لینا درست ہے۔ اور ا س کے پیچھے نماز میں کوئی کراہت بھی نہیں۔فقط،و اللہ کن کن لوگوں کو صدقۂ فطر نہیں دے سکتے جن لوگوں کوزکوۃ نہیں دی جاسکتی‘ انہیں صدقۂ فطر نہیں دیا جاسکتا۔ وہ یہ ہیں: ’’اصول‘‘ :ماں ‘باپ،دادا ‘ دادی،نانا‘ نانی، وغیرہ۔ ’’ فروع‘‘:بیٹا‘ بیٹی، پوتا‘ پوتی، نواسہ‘ نواسی وغیرہ۔ زوجین: میاں ‘ بیوی‘ ان رشتہ داروں کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی۔ سادات ‘ نیز صاحب نصاب کو بھی زکوۃ ( صدقۂ فطر) نہ دیا جائے۔ ( فتاوی محمودیہ ص ۱۰۹ ج۱۷) مسئلہ:میاں ‘بیوی ایک دوسرے کوزکوۃ (و صدقۂ فطر) نہیں دے سکتے، طلاق کے بعد بھی جب تک عدت نہیں گذر جاتی صدقۂ فطر دینا جائز نہیں۔ ( احسن الفتاوی ص ۲۶۹ ج۴) مسئلہ:جب کوئی ایسا شخص جس کے ذمہ زکوۃ‘ صدقۂ فطر ‘ یاکفارہ‘ صدقۂ نذر ہو‘ بلا وصیت کئے فوت ہوجائے تو ا س کے ترکہ سے ادا نہیں کیا جائے گا،لیکن اس نے وصیت کی ہو تو ترکہ میں ادا کیا جائے گا‘ اور وہ وصیت اس کے تہائی مال میںجاری ہوگی‘ خواہ پوری زکوۃ و فطرہ وغیرہ کو کفایت کرے یا نہ کرے، لیکن اس کے وارث ( بشرطیکہ سب بالغ ہوں) تہائی سے زیادہ دینے پر راضی ہوں‘ تو جس قدر وہ خوشی سے دیدیں لے لیا جائے گا۔ اگر وصیت نہیں کی اور اس کے وارث اس کی طرف سے ادا کردیں تو جائز ہے اور اگر وہ ادا نہ کریں یا اس میں کوئی اپنے حصہ میں سے نہ دے تو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ مسئلہ:صدقۂ فطر وصول کرنے کے لئے کسی عامل کومقرر کرکے قبائل میں نہ بھیجا جائے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیںہے ، لیکن کسی شخص کو اس طرح مقرر کردینا کہ لوگ خودآکر ا س کو دے جایا کریں ‘ تو یہ جائز ہے۔( البدائع الصنائع ص ۷۵ ج۲، باب صدقۃ الفطر ،فی آخر الزکوۃ) نوٹ : جہاں حوالہ نہیں ‘ وہ تمام مسائل ’’زبدۃ الفقہ خلاصہ عمدۃ الفقہ‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ مؤکل کی مرسلہ رقم موصول ہونے سے