آئینہ رمضان - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سوال: زکوۃ واجب ہونے کی کیا شرطیں ہیں ؟ کیا رہن رکھی ہوئی چیز اور قرض میں بھی زکوۃ واجب ہوتی ہے ؟ الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً: زکوۃ اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو مسلمان ہو، عاقل ہو اور بالغ ہو ، نابالغ بچوں کے مال میں زکوۃ واجب نہیں ،(الہدایۃ مع الفتح : ۲/۱۱۵ ۔)پاگل کے مال میں بھی زکوۃ واجب نہیں ہوتی ۔( المرجع السابق ۔) زکوۃ واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مالِ زکوۃ مکمل طور پر اس کی ملکیت میں ہو( الفتاوی التاتارخانیۃ : ۲/۲۱۷ ۔ )لہذا رہن رکھی ہوئی چیز پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی ،(الفتاوی الھندیۃ : ۱/۱۷۲ ۔) البتہ امانت رکھی ہوئی چیز میں زکوۃ واجب ہوگی اور اصل مالک اس کی زکوۃ ادا کرے گا ، (فتح القدیر : ۲/۲۲۱ ۔)بینک اور فکسڈڈپازٹ میں رکھی ہوئی رقم پر بھی زکوۃ واجب ہوگی ۔ قرض دی ہوئی رقم یا تجارتی سامان کی قیمت کسی کے ذمہ باقی ہو اور جس کے ذمہ باقی ہو وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہو اور بظاہر اس قرض کی وصولی کی توقع ہو تو اس میں زکوۃ واجب ہوگی ، فی الحال بھی ادا کرسکتا ہے اور قرض وصول ہونے کے بعد بھی پوری مدت کی زکوۃ ادا کرسکتا ہے ،قریب قریب یہی حکم ان بقایاجات کا ہے جو اجرت و مزدوری ، کرایۂ مکان و سامان یا رہائشی مکان کی قیمت وغیرہ کے سلسلے میں ہے اور وصولی متوقع ہو ،ان پر بھی زکوۃ واجب ہوگی ، خواہ ابھی ادا کردے یا قرض وصول ہونے کے بعد ۔(الفتاوی التاتار خانیۃ : ۲/۳۰۱ ۔) ایسا قرض کہ جس کی وصولی کی توقع نہ ہو ،لیکن وصول ہوگیا یا قرض کسی مال کے بدلہ میں نہ ہو جیسے مہر اور بدل خلع وغیرہ ، مقروض دیوالیہ ہو اور وصولی کی امید نہ ہو ، قرض کا انکار کرتا ہو اور مناسب ثبوت موجود نہ ہو ، ان تمام صورتوں میں جب بقایاجات وصول ہوجائیں اور سال گزر جائے تب ہی زکوۃ واجب ہوگی ، اس سے پہلے نہیں ۔(بدائع الصنائع : ۲/۲۱۰ ۔) ضروری اور استعمالی چیزوں میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی اور ان کو مستثنیٰ کرکے ہی زکوۃ واجب ہوتی ہے ، ایسی ہی اشیاء کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ حاجتِ اصلیہ ‘‘ کہتے ہیں ، رہائشی مکانات ، استعمالی کپڑے ، سواری کے جانور یا گاڑی ، حفاظت کے ہتھیار ، زیبائش کے سامان ، ہیرے جواہرات ، یاقوت ، قیمتی برتن وغیرہ میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی ، (الفتاوی الہندیہ :۱/۱۷۲،الھدایہ مع الفتح :۲/۱۱۹)صنعتی آلات اور مشینیں جو سامان تیار کرتی ہیں اور خود باقی رہتی ہیں، کرایہ کی گاڑیاں ، ان چیزوں میں بھی زکوۃ نہیں ، البتہ رنگریز جو کپڑے رنگنے کا پیشہ رکھتا ہو ، اس کے پاس محفوظ رنگ میں زکوۃ واجب ہوگی ، البتہ ذکر کی گئی چیزوں میں سے کسی بھی چیز کی تجارت کی جائے تواس میں زکوۃ واجب ہوگی ۔ (کتاب الفتاوی ج ۳؍۲۵۷۔ ۲۵۹)