حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مسندِ اہتمام اور دارالعلوم دیوبند کی تر قیا ت اس کے شایاں تھا یقیناً دیو بند کا اہتمام اس کی ابرو کا اشارہ بس تھا بہرِانتظام فیض طیبؔ سے ہوا سیراب جب وہ گلستاں ہوگئی ہر شاخ اس کی پر بہار وگلفشاں دیوبند کا مدرسہ تھا بن گیا دارالعلوم تشنگانِ علم و فن کا ہو گیا اس پر ہجوم باغباں نے ہر روش اس کی سجائی خوب تر بھر دیے دامن میں اس کے بے بہا لعل و گہر اس کا اٹھاون برس چمکا ہے دور اہتمام لائقِ صد آفریں تھا اس کا حسنِ انتظام اواخر ۱۳۳۹ھ میں دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے رکن مولانا سعید الدین صاحب رامپوری نے مجلس میں یہ تحریک پیش کی تھی کہ حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ مہتمم دارالعلوم اپنی کبر سنی کے سبب سے ضعیف ہوگئے ہیں ۔ ہر چند ان حضرات نے اب تک خدمات دارالعلوم میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ تاہم مجلس شوریٰ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس امر کا احساس کرتے ہوئے ایسے وسائل اختیار کرے جس سے ان حضرات کو فی الجملہ اپنے کاموں میں امداد مل سکے۔ تجویز کا متن یہ تھا: ’’حضرت مہتمم صاحب (مولانا محمد احمد صاحبؒ) اور نائب مہتمم صاحب (مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ ) کی جو کچھ خدمات ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں ۔ اب یہ دونوں حضرات بوجہ تقاضائے عمر و نیز بسبب امراض گوناگوں ضعیف ہوگئے ہیں ۔ اگرچہ خدمات دارالعلوم میں کسی قسم کا فرق نہیں آنے دیتے، لیکن مجلس شوریٰ کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا احساس کرکے ایسے وسائل پیدا کرے جس میں ہر دو حضرات کو خاص طور سے اپنے کاموں میں امداد ملے۔ لہٰذا ایک عہدہ نائب دوم کا تجویز کرنا ضروری ہے اور اس خدمت پر ایسا شخص تجویز کرنا ضروری ہوگا۔ جو صاحب علم عالی خاندان اور بااثر ہو۔ دارالعلوم کے ساتھ سچی اور دلی ہمدردی مثل ان ہر دو حضرات کے رکھتا ہو۔ پس میں اپنی رائے میں اس عہدہ کے لیے مولانا محمد طیب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کو تجویز کرتا ہوں ۔