حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تقریب مولانا محمد سفیان قاسمی نائب مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند رجال کار خدائی نظام ہدایت کا حصہ ہوتے ہیں ، جو اپنی تعلمات، سیرت و کردار، اخلاق و عمل، اپنی ظاہری و باطنی قوتوں اور ذہنی و فکری صلاحیتوں سے انسانی تہذیب و تمدن کو اس نظامِ ہدایت کے سانچہ میں ڈھلانے اور اس کی مرضی و منشاء کی ترویج و تطبیق کے لئے جدوجہد کرتے ہیں ، یہ رجال کاراپنے آپ میں ایک عہد کی دینی تاریخ اور اپنی ذات میں ایک مستقل امت کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان سے ایک تاریخ بنتی ہے، ایک زمانے کے دینی تصورات اور فکری ارتقاء کی ایک اجلی تصویر اور تجدید دین کی ایک صاف ستھری تفسیر خود ان کی ذات ہوتی ہے۔ آنے والے ان کی کتابِ زندگی کے جب اوراق پلٹتے ہیں تو لفظ لفظ ان کے تقویٰ و طہارت کی شہادت فراہم کرتا ہے، سطر سطر ان کی دینی عظمت، ایمانی قوت اور سیرت و کردار کی پاکیزگی کی سند پیش کرتی ہے۔ قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کے پاکیزہ قصوں کے ضمن میں جگہ جگہ ان مقدس ہستیوں کی صلاح و تقویٰ سے معمور زندگیوں اور ان کے ایمان افروز تذکروں کو بار بار دوہرا کر یہ سبق دیا ہے کہ رجال دین کے حالاتِ زندگی انسانی سیرت و اخلاق کی درست نہج پر تعمیر کا ایک پراثر اور طاقتور پیغام اپنے اندر رکھتے ہیں ، ان کی زندگی کے قیمتی لمحات، کتنی ہی زندگیوں میں صالح انقلاب کا ذریعہ، ان کی سیرت و کردار کی روشنی مخلوقِ خدا کے لئے قندیل ربانی اور ان کی للہیت اور حسن نیت کے سچے واقعات پژمردہ دلوں کے لئے حیات نو کا سامان بنتے ہیں ۔ انہیں پاکیزہ مقاصد کو سامنے رکھ کر سلفِ صالحین کی سوانح عمریاں مرتب ہوئیں اور تراجم رجال کا ایک خزانہ عامرہ امت کے سامنے آیا، اسے حکمت الٰہیہ کی کارفرمائی کہئے کہ دین اسلام کی تعلیمات، عباداتِ نظام اخلاق اور شرائع و احکام کے تحفظ کا ذریعہ جب رجال دین کو بنایا تو خود رجالِ دین کے نقوش زندگی اور ان کے ذکر خیر کی حفاظت کا بھی تکوینی طور پر اس طرح بندو بست فرمادیا کہ تراجم رجال اور شخصیات دین کی سوانح حیات کو منضبط و محفوظ کردینے کا داعیہ امت مسلمہ میں پیدا فرمایا۔ اس تکوینی نظام کے تحت امت مسلمہ کے پاس اپنے آخری پیغمبر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ایک ایک گوشہ اور آپؐ